عورت کا مقام و مرتبہ
معاشرتي لحاظ سے پوري تاريخ ميں ايسے بہت کم موضوع پائے جاتے ہيں جو عورت کي شخصيت يا ہويت کے موضوع کي بہ نسبت زيادہ تنقيد وغيرہ کا نشانہ بنے ہوں يا ان کے بارے ميں متعدد اور مختلف تشريحات کي گئي ہوں ابھي بھي يور پي اور مشرقي دنيا ميں عورت کے بارے ميں غلط بے ڈھنگ اور گمراہ کن نظريات پائے جاتے ہيں
ان سب ميں صرف انبيائ ، اوصيائ اور اہل حق کا واحد مکتب ہے کہ جس ميں : ’’من اخلاق الانبيائ حبُّ النسائ؛ عورتوں سے محبت انبيائ کے اخلاق ميں سے ہے‘‘ کے ذريعہ افراط و تفريط کے بغير وحي اور خدا سے رابطہ کے ذريعہ اچھي طرح سے عورت کي منزلت کو بيان کيا جارہا ہے .اور اس کي صاف وشفاف اورہر قسمي تحريف کے بغير مکمل صورت اور پيغمبر اکرم اور اہل بيت کي صحيح سنت کے ذريعے عورت کي شخصيت، قدر ومنزلت اور اس کي حيثيت کو بيان کيا ہے قرآن و سنت کي بنياد پر، عورت کا خلقت اور پيدائش کے لحاظ سے مرد سے کسي قسم کا کوئي فرق نہيں ہے، البتہ مرد کے ساتھ بعض چيزوں ميں شريک ہونے کے باوجود خدائے متعال کي حکمت اور لطف کي بنا پر بعض چيزوں ميں اس کي استعداد، اس کے وظائف اور حقوق وغيرہ مردوں سے مختلف ہيں
قرآن کريم اور سنت سے جو کچھ ہميں ملتا ہے وہ يہي ہے کہ عورت لطيف اور رحمت ہے. اس کے ساتھ لطف و کرم اور مہرباني کي جائے، اچھا سلوک کيا جائے اس کے ساتھ ساتھ اس کے ظريف اور نازک وجود کي تعريف کي گئي ہے نہج البلاغہ ميں تقريباً 25 جگہوں پر خطبوں، خطوط اور کلمات قصار ميں عورتوں کے بارے ميں گفتگو کي گئي ہے جن ميں سے چند ايک موارد کو چھوڑ کر باقي ايسي احاديث، جملات يا کلمات ہيں کہ جن کا مطالعہ کرنے سے لوگ ابتدا ميں يہ محسوس کر سکتے ہيں کہ نہج البلاغہ ميں عورتوں کے متعلق منفي نظريہ پايا جاتا ہے اور يہي چيز کافي ہے کہ جوانوں اور خواتين کے درميان نہج البلاغہ کے بارے ميں شک و ترديد پيدا ہو جائےخاص کر آج کل کے زمانے ميں کہ جہاں عورتيں سياسي، تربيتي، ثقافتي اور اجتماعي امور ميں پيش پيش ہيں، اگر ہم اس سلسلے ميں ان ابہامات کو دور نہ کرسکيں، ان کے سوالوں کے جواب نہ دے سکيں اور ان شبہات کا جو جوانوں اور خواتين کے ذہنوں ميں نہج البلاغہ کي بہ نسبت ايجاد ہوئے ہيں ،کا جواب نہ دے سکيں تو ہميں ان کے گمراہ اور اسلامي ثقافت سے منحرف رہنے کا شائبہ رہنا چاہيے. اور پھر اس گمراہي اور ضلالت کے ہم خود ہي ذمہ دار ہوں گے اس کے علاوہ ظاہر سي بات ہے کہ آئمہ معصومين خاص کر حضرت امير المومنين علي کے کلام مبارک کا کوئي تربيتي اثر نہيں ہوگا بلکہ اس طرح کے جوان اور ہمارہ معاشرہ آئمہ کے بارے ميں بد ظن ہو کر ان سے دوري اختيار کرے گا اور انہيں اپنے لئے اسوہ اور نمونہ بنانے سے اجتناب کرے
اس مضمون ميں نہج البلاغہ ميں عورتوں کے بارے ميں موجود عبارتوں کے بارے ميں کچھ نظريات ذ کر کيے گئے ہيں اور معاشرے پر اس کے کيا اثرات مرتب ہوسکتے ہيں اور ساتھ ہي آخر ميں اصلي اور صحيح نظريہ بھي بيان کيا گيا ہے. نيز اس کے بعض تربيتي پہلو بھي بيان کيے گئے ہيں اگر چہ محدوديت کي بنا پر اختصارسے کام ليا گيا ہے ليکن قارئين گرامي خود تحقيق کر کے اس کے دلائل سے آگاہي حاصل کر سکتے ہيں
تحریر: سيد ارشد حسين موسوي کشميري
متعلقہ تحريريں :
ايران کي تاريخ ميں عورت
اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ دوّم )
شريک حيات کے حقوق
گرمي‘ لُو‘ حفاظت اور سدابہار تندرستي
بہتر ين روش کا تسلط