سورۂ رعد کي آيت نمبر 5-3 کي تفسير
"و ھو الّذي مدّالارض و جعل فيھا رواسي و انھارا" و من کلّ الثّمرات جعل فيھا زوجين اثنين يغشي الّيل النّہار انّ في ذالک لايات لّقوم يّتفکرون"اور وہي وہ ( خدا) ہے جس نے زمين کا وسيع و عريض فرش بچھايا اور پھيلايا اور اس ميں پہاڑوں کو ثابت و مستحکم قرار ديا اور نہريں جاري کيں اور تمام پھلوں کے جوڑے قرار دئے وہ دن کے اجالے ميں شب کي تاريکي کو چھپا ديتا ہے ، يقينا" اس ميں اہل فکر و نظر کے لئے نشانياں ہي نشانياں ہيں-
گفتگو آسمانوں کي تخليق کے سلسلے ميں تھي اب اس آيت ميں زمين کي تخليق اور وسيع و عريض خشکيون ميں بلند و بالا پہاڑوں کے مستحکم ستون اور ان کے درميان موجيں مارتي ہوئي نہروں اور طرح طرح کے پھلوں اور ميووں کے جوڑوں کا ذکر کرتے ہوئے خدا فرماتا ہے وہي وہ ہے جو شب کو دن کے اجالے ميں چھپا ديتا ہے تا کہ دن بھر کي کوشش و جستجو کے بعد رات کي چادر اوڑھ کر تم بھي آرام و استراحت کي سانس لے سکو،يہ زمين اسي شکل ميں اگر پھيلائي نہ جاتي تو اس پر بسے ہوئے انسان و حيوان اپني حيات جاري نہيں رکھ سکتے تھے زمين پست و بلند ہونے کے بجائے مسطح ہوتي تو بھي اس ميں پاني ذخيرہ کرکے نہريں جاري کرنے اور زمين کو ہرابھرا اور آباد کردينے کي صلاحيت نہ ہوتي، اللہ نے اسي لئے خشکيوں کے درميان اونچے نيچے پہاڑ قائم کئے کہ آسمانوں سے برسنے والے پاني وہ اپنے دامن ميں ذخيرہ کرکے نہريں جاري کريں اور سبزہ زاروں اور پھلوں کے باغات کو سيراب کريں اور شب و روز جو گرمي و سردي کا باعث بنتے ہيں ، درختوں اور پھلوں کے وجود ميں اہم کردار ادا کرتے ہيں - اسي طرح شب و روز کي ايجاد کردہ روشني اور تاريکي بھي انسانوں اور حيوانوں کي زندگي ميں بڑي اہميت رکھتي ہے دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن کے وجود سے روزي روٹي کي تلاش و جستجو ميں بھاگ دوڑ اور تھکن کے بعد آرام و سکون کا ماحول فراہم ہوجاتا ہے اور يہ تمام باتيں الہي نظم و تدبير کي علامت ہيں اور بتاتي ہيں کہ کائنات کا نظام ايک حکيم و مدبر پروردگار کے ہاتھ ميں ہے جو انسانوں کا خالق و مربي ہے بشرطيکہ انسان غور و فکر سے کام لے- اس آيت ميں ايک قابل توجہ نکتہ نباتات کي زوجيت اور تمام پيڑ پودھوں اور پھلوں اور پھولوں کے درميان جوڑے پيدا کرنے کا مسئلہ ہے جو قرآن نے چودہ سو سال پہلے اعلان کيا ہے اس وقت يہ مسئلہ صرف چند درختوں کے سلسلے ميں ہي ثابت ہوسکا تھا اور اسے ايک کليہ کے عنوان سے لوگ قبول نہيں کرتے تھے ليکن عصر حاضر ميں تمام دانشوروں کے درميان يہ بات ثابت ہوچکي ہے کہ زوجيت کا فطري اصول حيوانات کي مانند نباتات ميں بھي کارفرما ہے يعني ہر صنف کے پھلوں اور پھولوں کے درختوں ميں نر و مادہ پائے جاتے ہيں البتہ زيادہ تر نر و مادہ ايک ہي درخت ميں ساتھ ساتھ ہوتے ہيں ليکن خرمہ کي مانند کبھي کبھي نر و مادہ الگ الگ درختوں ميں ہوتے ہيں اور توليد کا عمل ہواğ يا پرندوں کے ذريعے نر و مادہ کے اجزا منتقل ہونے سے انجام پاتا ہے الہي حکمت و تدبير کي يہ اعلي ترين نشاني ہے -البتہ " جوڑے جوڑے کا مطلب يہ بھي ہوسکتا ہے کہ ان کي مختلف النوع متضاد قسميں پيدا کي ہيں ميٹھے ہيں تو کھٹے بھي ہيں سردي کے ہيں تو گرمي کے بھي ہيں خشکي کے ہيں تو تري کے بھي ہيں، ذائقہ دار ہيں تو بدمزہ بھي ہيں اور اس سے کوئي فرق نہيں پڑتا کہ دو مختلف صنفوں کے علاوہ تيسري صنف بھي پائي جاتي ہے يا نہيں کيونکہ تثنيہ تکرار کے معني ميں بھي آتا ہے چنانچہ صاحب الميزان علامہ طباطبائي اسي قول کے حق ميں ہيں - اور اب سورۂ رعد کي چوتھي آيت ارشاد ہوتا ہے:
و في الارض قطع مّتجاورات وّ جنّات مّن اعناب وّزرع وّ نخيل صنوان وّ غير صنوان يّسقي بماء وّاحد و نفضّل بعضہا علي بعض في الاکل انّ في ذالک لايات لّقوم يّعقلون (يعني) زمين ميں مختلف ٹکڑے ايک دوسرے سے متصل برابر سے پائے جاتے ہيں اور طرح طرح کے انگور کے باغات ہيں، مختلف ( اناجوں کے ) کھيت ہيں اور کھجوروں کے درخت ہيں بعض کي شاخيں ہيں اور بعض بغير شاخوں کے ہيں اور سب کي ايک ہي پاني سے سينچائي اور آبياري ہوتي ہے اور ہم ( پھلوں کے لحاظ سے ) ان ميں بعض کو بعض پر برتري ديتے ہيں يقينا" اس ميں بھي صاحبان عقل و فکر کے لئے بہت سي نشانياں موجود ہيں -
آسمان و زمين اور پہاڑوں اور درياğ کي تخليق کا Иر کرنے کے بعد اس آيت ميں خداوند عالم نے طرح طرح کي پيداوار کي طرف اشارہ کيا ہے جو ايک دوسرے سے متصل زرخيز اور بنجر زمينيں انسان کو ہديہ کرتي ہيں ہزاروں قسم کے پيڑ پودھے اور سبزے پھل پھول اور ميوے پيدا ہوتے ہيں جو انسان اور جانوروں کي خوراک بنتے ہيں خدا فرماتا ہے کہ يہ سب ايک ہي پاني سے سيراب ہوتے ہيں اور دس دس قسم کے درخت ايک ہي باغ ميں ايک ہي آب و خاک و ہوا سے استفادہ کرتے ہيں ليکن ان درختوں کے پھلوں اور پھولوں کے رنگ، بو، شکل اور مزہ ميں فرق ہے اور يہي چيز ان ميں برتري کا باعث ہے جو خدا نے ان کو دي ہے چنانچہ يہ تمام باتيں ايک قوي و مقتدر حکيم و مدبر پروردگار کے وجود کي نشانياں ہيں البتہ ان لوگوں کے لئے جو عقل و فکر سے کام ليتے ہيں - اور اب سورۂ رعد کي پانچويں آيت جس ميں خدا فرماتا ہے :
و ان تعجب فعجب قولہم ء اذا کنّا ترابا ء انّا لفي خلق جديد اولئک الّذين کفروا برّبہم و اولئک الاعلال في اعناقہم و اولئک اصحاب النّارہم فيہا خالدونپس ( اے ہمارے نبي ص) اگر آپ کو ( رسالت کاانکار کرنے والے مشرکين کي) کسي بات پر تعجب و حيراني ہے تو واقعا لائق تعجب ان کا يہ سوال ہے کہ کيا جب ہم ( موت کے بعد) مٹي ميں مل جائيں گے ہم کو پھر سے ايک نئي زندگي ملے گي؟ يہي وہ لوگ ہيں جنہوں نے اپنے پروردگار کا انکار کيا ہے اور ان کي گردنوں ميں طوق پڑے ہوں گے، يہي لوگ جہنم کے ساتھي ہيں اور اسي ميں ہميشہ پڑے جلتے رہيں گے -
اس آيت ميں گويا پيغمبر اسلام (ص) کو تسکيں دي گئي ہے کہ يہ کفار و مشرکين جو آپ کي رسالت کا انکار کيا کرتے ہيں اور آپ ان کي ہٹ دھرمي پر حيران و پريشان نظر آتے ہيں يقينا آپ حق بجانب ہے تعجب و حيراني کي بات ہي ہے مگر اس سے بھي زيادہ حيراني کا مقام يہ ہے کہ يہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہيں کہ کيا ہم کو خاک ميں ملنے کے بعد دوبارہ اٹھايا جائے گا ؟ اور ہم کو نئي حيات ملے گي ؟ ان کو خدا کي قدرت پر يقين نہيں آتا!! وہ خدا جو ايک دفعہ ان کو حيات دے سکتا ہے کيا خاک ميں ملنے کے بعد دوبارہ انہيں زندگي نہيں دے سکتا؟ ! مگر يہ بات يہ لوگ نہيں سمجھتے - يہ ان لوگوں کے کفر کا نتيجہ ہے جو لوگ خدا کے ہي منکر ہوں معاد اور نبوت کا انکار ان سے بعيد نہيں ہے اور اس کے بعد آيت ميں ان کے برے انجام کي خبر دي گئي ہے کہ ان کي گردنوں ميں طوق ہوں گے جہنم کا ايندھن بنيں گے اور ہميشہ اسي ميں جلتے رہيں گے -اور اب زير بحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا ايک خلاصہ: يہ آب و خاک و ہوا جو تمام زميني مخلوقات کي حيات کا سэشمہ ہے خدا نے ہي پيدا کيا ہے اور تمام مخلوقات اس سے فائدہ اٹھاتي ہيں - ليکن ايک ہي پاني اور ايک ہي مٹي سے پيدا شدہ درختوں اور ان کے پھول اور پھلوں کي شکليں ، ذائقے اور رنگ و بو ميں کتنا فرق پايا جاتا ہے جو خدا کي قدرت کاملہ کو نماياں کرتا ہے -· عالم خلقت ايک عظيم درسگاہ ہے جس سے اہل عقل و خرد سبق حاصل کرتے ہيں اور اپني معرفت ميں قوت و استحکام پيدا کرتے ہيں -·ايک ساتھ پيدا ہونا اور ايک دوسرے کے پڑوس ميں زندگي بسرکرنا، ايک جيسا ہونے کي دليل نہيں بن سکتا - "بہتر ہونا" بہتر استفادہ کے سبب ہے انبياء، اولياء اور علماء کے ساتھ بھي يہي ہے ساتھ رہنا کافي نہيں ہے ساتھ رہ کر فائدہ اٹھانا فضيلت و برتري عطا کرتا ہے - کبھي کبھي ايک ہي پاني سے سيراب ہوکر زمين کا ايک حصہ زرخيز بن جاتا ہے اور اسي سے متصل دوسرا حصہ بنجر پڑا رہتا ہے يا زرخيز زمينوں پر اگنے والے درخت اور پھل الگ الگ طرح کے ہوتے ہيں ايک ہي باغ ميں مختلف پھل، مختلف رنگ، مختلف مزہ اور مختلف شکلوں کے ہوتے ہيں جو اصل و حقيقت ميں فرق ہونے يا ماحول سے حسب استطاعت استفادہ کرنے کا نتيجہ ہوتے ہيں- خدا کا انکار کرنے والے نفساني خواہشات کے غلام بن جاتے ہيں اسي لئے قيامت کے دن ان کي گردنوں ميں ( غلامي کے ) قلادے اور زنجيريں پڑي ہوں گي - اسي طرح جو لوگ قيامت کے منکر ہيں اچھے کام بھي صرف دنيا کے لئے کرتے ہيں اور دنيا ميں ہي اس کا بدلا آل اولاد ، مال و دولت اور عزت و شہرت کي صورت ميں مل جاتا ہے قيامت ميں اپني بداعماليوں اور بے اعتقاديوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہيں اور خدا ان کو جہنم کي آگ ميں ہميشہ ہميشہ کے لئے جھونک ديتا ہے -اسي طرح الم سجدہ کي گيارہويں آيت کے مطابق آدمي موت کے بعد زمين ميں گم نہيں ہوتا اس کي حقيقت روح کي شکل ميں باقي رہتي ہے -
بشکريہ آئي آر آئي بي
متعلقہ تحريريں:
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 109-107کي تفسير
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 105-102 کي تفسير
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 101-100 کي تفسير
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 99-96 کي تفسير
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 95-92 کي تفسير