آل سعود کو نئي صورت حال کا سامنا
اہل البيت (ع) نيوز ايجنسي ـ ابنا ـ کي رپورٹ کے مطابق سعودي عرب کے امور کے مصري ماہر و تجزيہ نگار "فکري عبدالمطلب" کا کہنا ہے کہ "ابھا شہر" ميں طالبات کے احتجاجي مظاہرے اور ان کے ساتھ ديگر سعودي طلبہ کي يکجہتي سعودي عرب کي استبدادي حکومت ميں عربي بہار کے لئے نئي پيشرفت ہے چنانچہ سعودي عرب اس وقت ايک انقلاب اور مختلف بہار کا سامنا کررہا ہے-
فکري عبدالمطلب نے کہا کہ سعودي عرب ميں طالبات نے احتجاج کيا اور پھر پورے ملک کے طلبہ نے ان کي حمايت کي اور اب ملک بھر ميں مظاہرے ہورہے ہيں يوں سعودي عرب کا عوامي انقلاب القطيف سے ابہا يونيورسٹي تک گيا اور وہاں سے پورے ملک ميں پھيل رہا ہے اور عربي بھار کو سعودي عرب ميں زبردست پذيرائي مل رہي ہے اور آج ہم سعودي عرب ميں بالکل نئي صورت حال ديکھ رہے ہيں-
انھوں نے کہا: سعودي حکومت تيونس اور مصر کے زوال يافتہ حکمرانوں کي مانند کوتہ بيني اور حماقت سے دوچار ہيں اور وہ عرب ممالک ميں رونما ہونے والے واقعات سے گويا درس عبرت حاصل نہيں کرنا چاہتي-
انھوں نے کہا کہ مارچ 2011 ميں سعودي عرب ميں يوم الغضب منايا گيا اور کئي سياسي راہنما گرفتار ہوئے اور بعد ميں ہيومين رائٹس واچ نے ان افراد کے کيس کي پيروي کي اور انکشاف کيا کہ يہ افراد سعودي جيلوں ميں بند ہيں-
انھوں نے کہا: سعودي عرب ميں طلبہ کا احتجاج دوسرے طلبہ کو ساتھ ملا کر، علاقائي انقلابات کے تسلسل ميں اپنے ثمرات آہستہ آہستہ دکھا رہا ہے- وہ بھي ايسے ملک ميں جس کے حکمران سب کے سب بوڑھے ہوچکے ہيں اور نظر يوں آتا ہے کہ شہزادوں کي نئي نسل کے درميان اختلافات شديد ہورہے ہيں-
سعودي عرب کے امور پر نظر رکھنے والے اس مصري تجزيہ نگار نے کہا: مطلق العنان حکمران خاندان کے اندروني اختلافات، منطقۃ الشرقيہ کا طويل المدت قيام و انقلاب اور شاہ خالد يونيورسٹي کا احتجاج اور اس کے بعد ہونے والے احتجاجي مظاہرے عنقريب خاص قسم کي تبديليوں پر منتج ہونگے اور يہ امر خاص طور پر روشن مستقبل کي نويد دے رہا ہے کہ يہ تحريک 2002 سے شروع ہونے والي اصلاحي تحريک کو ساتھ ملانے ميں کامياب ہوچکي ہے-
فکري عبدالمطلب نے کہا: خاندان آل سعود امريکيوں کي مدد سے اپني سرزمين ميں بھي اور دوسري انقلابي قوموں کے اندر بھي انقلاب مخالف سازشوں کو تقويت پہنچائے گا جبکہ قطر کا حکمران خاندان بھي دوسرے ممالک ميں اپنے لئے قدم رکھنے کي جگہ ڈھونڈ رہا ہے-
ــ سعودي عرب: آل سعود کا انجام حسني مبارک اور بن علي سے بہتر نہيں
ايک سعودي اپوزيشن راہنما نے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے شہريوں کے خلاف تشدد آميز کاروائيوں نے آل سعود کو بے نقاب کرديا ہے اور آل سعود کا انجام بھي مصر کے حسني مبارک اور تيونس کے بن علي سے کسي طور بہتر نہ ہوگا-
اطلاعات کے مطابق سعودي حزب مخالف کے راہنما :معروف الاحمد" نے کہا ہے کہ آل سعود کي حکومت عوامي انقلاب کو سرے سے ختم کرنا چاہتي ہے ليکن حالات اس کے قابو سے قابو ہورہے ہيں؛ سعودي حکمران اس انقلاب کا گلا گھونٹنا چاہتے ہيں ليکن عوام مظاہرے کرتے ہيں اور اپنے مطالبات پر زور ديتے ہيں-
انھوں نے "ابھا" اور ديگر شہروں ميں آل سعود کي سيکورٹي افواج کے ہاتھوں عوامي مظاہروں کو کچلے جانے کے واقعات کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آل سعود کي حکومت کا انجام بھي دوسري بدعنوان عرب حکومتوں کي مانند ہوگا جس کي زندہ مثال مصر کي مبارک حکومت اور تيونس کي بن علي حکومت ہے-
انھوں نے کہا: سعودي عرب کے مختلف شہروں کے عوام کے احتجاجي مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام آل سعود کے رويوں سے شديد غم و غصے ميں مبتلا ہوئے ہيں اور آج جزيرة العرب کے عوام نے خوف کي ديواريں توڑ دي ہيں اور وہ اپنا مافي الضمير بيان کرنے کے لئے ہر قيمت پر مظاہرے کرتے ہيں؛ شاہ خالد يونيورسٹي کے طلبہ نے اس يونيورسٹي کے احاطے ميں زبردست مظاہرے کئے ہيں اور آنے والے دنوں ميں اس بوسيدہ حکومت کے خلاف زيادہ وسيع مظاہروں کا اپتمام کيا جائے گا-
ــ سعودي محقق: حکمران خاندان عوامي تحريک کے سامنے بے بس ہوچـکا ہے
سعودي محقق و قلمکار نے آل سعود کے خلاف ہونے والے احتجاجي مظاہروں کي سياسي و جغرافيائي وسعت کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آل سعود خاندان اپنے ملک کے عوام کي صدائے احتجاج کو خاموش کرنے کي صلاحيت کھو گيا ہے-
اطلاعات کے مطابق فؤاد ابراہيم نے اتوار کے روز العالم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ابھا شہر ميں ہونے والے مظاہروں ميں ہزاروں افراد شريک ہوئے اور سعودي عرب عوام انقلاب کے نئے مرحلے ميں داخل ہوا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوامي انقلاب سياسي اور جغرافيائي لحاظ سے وسيع اور ہمہ گير ہوچکا ہے-
انھوں نے کہا منطقۃالشرقيہ ميں طويل عرصے سے جاري تحريک اب جنوب ميں الابھا اور شمال ميں العرعر جيسے شہروں تک پھيل گئي ہے اور تحريک ميں شامل لوگوں کے مطالبات ايک دوسرے سے مختلف ہيں-
انھوں نے کہا: آل سعود کا تشدد آميز رويہ بھي تحريک کي ہمہ گيري کا باعث ہوگيا ہے اور آل سعود سے وابستہ بعض حلقے شاہ خالد يونيورسٹي کے طلبہ کے اعتراضات کو بيروني قوتوں سے جوڑنا چاہتے ہيں جو نہايت مضحکہ خيز امر ہے اور اگر واقعي سمجھتے ہيں کہ ان احتجاجي مظاہروں کے عوامل بيروني ہيں تو يقين سے کہا جاسکتا ہے کہ سعودي حکمران سادہ لوحي کا شکار ہيں-
انھوں نے کہا: آل سعود کي حکومت مزيھ عوامي مظاہروں کو سنسر نہيں کرسکتي، عوام کي صداğ کو کو دنيا تک پہنچنے سے نہيں روک سکتي اور عوام کي سانسوں کو مزيد بند نہيں کرسکتي-
انھوں نے آل سعود کي طرف سے مذہب کا سہارا لے کر احتجاجي مظاہروں کي حرمت کے فتوے دلوانے جيسے اقدامات کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا آل سعود کا يہ دعوي درست نہيں ہے اور ادھر ابہا شہر کے عوام کے مظاہروں کے بعد عوام کا خوف زائل ہوچکا ہے اور عوام ابلاغي و تشہيري نيز فوجي اور حتي ديني ذرائع سے استفادہ کرکے عوام کو خوفزدہ کرنے کے سرکاري ہتکھنڈوں کو جان گئے ہيں چنانچہ اب خوفزدہ کرنا بھي آل سعود کے بس کي بات نہيں ہے-
ــ سعودي عرب: شيعہ علماء آل سعود کي فتنہ انگيزيوں سے فکرمند ہيں
جزيرة العرب کے شيعہ علماء نے عوام کے خلاف تشہيري اور فرقہ وارانہ حملوں کي مذمت کرتے ہوئے ايسے قانون کي منظور کرنے کا مطالبہ کيا جس کے تحت فرقہ واريت کو جرم قرار ديا جاسکے-
اطلاعات کے مطابق جزيرة العرب کے شيعہ عالم دين "شيخ عبدالکريم الحبيل" نے العالم سے بات چيت کرتے ہوئے کہا: مختلف مذہبي مکاتب فکر کے خلاف تشہيري مہم کے بموجب ايک مذہبي فرقے کے لوگ ايک علاقے سے دوسرے علاقے کي طرف ہجرت کرنے پرمجبور ہوگئے ہيں اور جب وہ بيرون ملک سفر کرتے ہيں تو مسلسل خوف و تشويش ميں مبتلا رہتے ہيں-
انھوں نے آل سعود کي فرقہ وارانہ محاذ آرائي پر تنقيد کرتے ہوئے اسلام مذاہب کے درميان فتنہ انگيزي کے حوالے سے آل سعود کي پاليسيوں اور ائمۂ مساجد کي طرف سے منظم انداز سے فرقہ واريت پھيلانے کي کوششوں کے خاتمے کا مطالبہ کيا-
انھوں نے کہا: سعودي عرب ميں جو لوگ اپنے حقوق اور آزاديوں کے خواہاں ہيں وہ آج تک اپني جان اور اپني اولاد کے ذريعے مذہبي امتيازي رويوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے رہے ہيں-
ادھر القطيف کي "امام علي (ع) مسجد" کے امام و خطيب "شيخ غازي الشبيب" نے ايسے قانون کے منظوري کا مطالبہ کيا ہے جو فرقہ واريت اور نسل پرستي کو جرم قرار ديتا ہو تا کہ عوام کے درميان انتشار اور عوام کي تکفير جيسے رجحانات کا سد باب کيا جاسکے-
انھوں نے کہا: جزيرۃ العرب ميں ہر عقلمند شخص کي ذمہ داري يہ ہے کہ وہ فتنہ انگيزيوں کے سامنے خاموشي اختيار نہ کريں-
انھوں نے کہا: ان فتنہ انگيزيوں کے سامنے خاموشي اختيار کرنا اس جرم ميں شراکت کے مترادف ہے-
"شيخ عبداللہ الاحمد" نے بھي نے شيعيان حجاز کے خلاف توہين، مساجد سے شيعيان اہل بيت (ع) کے خلاف بہتان تراشي اور شيعہ عقائد کے خلاف منفي تشہيري مہم پر تنقيد کرتے ہوئے تکفير کے مدعيوں کي حکمت عملي کو ناکام قرار ديا-
انھوں نے مساجد سے اس تشہيري مہم کو جاري رکھے جانے اور آل سعود سرکار کي خاموشي کي مذمت کرتے ہوئے آل سعود کے حکام سے مطالبہ کيا کہ خاموشي اختيار کرنے کي بجائے اس مسئلے کے لئے کوئي عملي راہ حل پيش کريں-
دريں اثناء القاعدہ سعودي عرب کے سرغنے "سعيد الشہري" نے پرسوں ايک آڈيو پيغام کے ذريعے القطيف کے علاقے ميں پرامن مظاہروں کے شرکاء کے قتل عام اور ان کے اموال کي لوٹ مار کو جائز قرار ديا!!!-
ــ سعودي عرب: القاعدہ نے شيعيان اہل بيت (ع) کے قتل عام کا حکم سنا ديا
دريں اثناء القاعدہ سعودي عرب کے سرغنے "سعيد الشہري" نے پرسوں ايک آڈيو پيغام کے ذريعے القطيف کے علاقے ميں پرامن مظاہروں کے شرکاء کے قتل عام اور ان کے اموال کي لوٹ مار کو جائز قرار ديا!!!-
موصولہ رپورٹ کے مطابق سعودي عرب ميں القاعدہ دہشت گرد ٹولے کے ايک سينئر کمانڈر سعيد الشہري ايک صوتي پيغام ميں سعودي عرب کے احتجاجي مظاہروں کو ايران سے جوڑنے کا دعوي کيا اور القطيف کے شيعہ مظاہرين کو قتل کرنے اور ان کے اموال لوٹنے جيسے اعمال کو جائز قرار ديا-
سعيدالشہري نے کہا کہ ان مظاہروں کا مقصد آل سعود کو اندروني مسائل ميں الجھانا ہے اور احتجاجي مظاہرے القطيف سے حجاز اور جنوبي علاقوں ميں منتقل ہورہے ہيں-
اس نے کہا کہ حکم يہ ہے کہ ان کو قتل کيا جائے اور ان کے اموال کو مال غنيمت کے طور پر اخذ کرنا چاہئے!!؟
سعيد نے (جو ظاہرا دوسرے دہشت گرد مفتيوں کي مانند دہشت گردي ميں افتاء کے مقام پر فائز ہوا ہے) اس کے بقول "بادشاہ کے مفتيوں" پر شديد نکتہ چيني کي-
سعودي القاعدہ نے پہلي بار سعودي عرب کے اندر اعلانيہ طور پر قطيف کے پرامن مظاہروں پر اپنا رد عمل ظاہر کيا ہے جبکہ اس سے قبل کہا جاتا تھا کہ القاعدہ آل سعود کي بادشاہت کا تختہ الٹنا چاہتي ہے ليکن اب ظاہر ہورہا ہے کہ آل سعود نے انہيں اپنے مقاصد کے لئے سرگرم کرديا ہے کيونکہ مفتيوں کے فتوے اور مولويوں کے خطبے عوامي مظاہروں کو نہيں روک سکے ہيں چنانچہ اب القاعدہ کو ميدان ميں لايا گيا ہے-
اس سے پہلے شام ميں امريکہ اسرائيل، سعودي عرب اور قطر کے مشترکہ محاذ کو بھي جب ضرورت پڑي تو انھوں نے القاغدہ کو موقف ظاہر کرنے کا حکم ديا چنانچہ ايمن الظواہري نے ان کي حمايت اور حکومت شام کے خلاف لڑنے کا اعلان کيا-
ــ آل سعود کے ہاتھوں عوام کي گرفتاريوں پر ہيومين رائٹس واچ کا رد عمل
ہيومين رائٹس واچ نے اظہار عقيدہ کي پاداش ميں سعودي حکومت کے ہاتھوں عوام کي وسيع گرفتاريوں پر کڑي تنقيد کي ہے اور آل سعود سے ان کي فوري رہائي کا مطالبہ کيا ہے-
اطلاعات کے مطابق ہيومين رائٹس واچ نے اپنے بيان ميں "صرف مظاہرے ميں شرکت کا ارادہ ظاہر کرنے پر" چھ سعودي شہريوں کي حراست پر، آل سعود سے مطالبہ کيا ہے کہ ايک سال سے قيد ان افراد کو فوري اور غير مشروط طور پر رہا کردے-
ہيومين رائٹس واچ کے مشرق وسطي کے شعبے کے سربراہ "فلپ لوتھر" نے اپنے بيان ميں کہا: ان چھ افراد ميں سے پانچ افراد ايک سال سے مقدمے کے بغير، قيد کاٹ رہے ہيں-
لوتھر نے زور دے کر کہا: کسي شخص کو صرف اس لئے قيد کيا جائے کہ "کسي مظاہرے ميں شرکت کا ارادہ رکھتا تھا" کسي صورت ميں بھي قابل فہم و تصور نہيں ہے اور يہ عمل ہماري سمجھ سے بالاتر ہے-
انھوں نے کہا: کہ خالدالجہني ايک اسکول ٹيچر ہيں جو 11 مارچ 2011 سے عدالتي کاروائي کے بغير جيل ميں ہيں-
انھوں نے کہا: جيلوں ميں قيد کي زندگي گذارنے والے سعودي شہريوں کا جرم صرف يہ ہے کہ انھوں نے اپني رائے اور عقيدے کا اظہار کيا تھا-
انھوں نے کہا: ہم نے سعودي عرب کي جيلوں ميں قيد سياسي قيديوں پر جيل ميں تشدد کے بارے ميں تحقيق کررہے ہيں اور ان چھ افراد ميں سے بھي کم از کم ايک فرد کو ٹارچر اور بدسلوکي نشانہ بنايا گيا ہے-