سورۂ رعد کي آيت نمبر 2-1 کي تفسير
سورۂ رعد ميں ، خداوند عظيم نے اس قرآني حقيقت کو بيان کيا ہے کہ اللہ کي يہ کتاب الہي معجزے اور الہي نشاني کي صورت ميں رسول اعظم حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلّم پر نازل ہوئي ہے اور يہ کہ کفار و مشرکين اس کو معجزہ اور الہي نشاني ماننے کو تيار کيوں نہيں تھے اور الہي آيات کے مسلسل مطالبہ کے ساتھ يہ کيوں کہا کرتے تھے کہ خدا اپني طرف سے کوئي نشاني کيوں نہيں نازل کرتا؟ جواب کے طور پر خداوند عالم نے اس سورے ميں ، آسمانوں کا شاميانہ تاننے، زمين کا فرش بچھانے اور آفتاب و ماہتاب کو تسخير کرنے نيز ان تمام عجائب و غرائب کو جو کائنات کے نظم و تدبير اور امر و تقدير ميں کارفرما ہيں اپني تخليقي يا تکويني نشانيوں ميں قرار ديا ہے اسي طرح، قرآن ميں گزشتہ نبيوں اور رسولوں سے متعلق دي گئي خبروں اور نشانيوں کو خدا نے اس سورے ميں نبي اکرم (ص) کي رسالت کي دليل بتايا ہے اور کہا ہے کہ خدا نے کفر سے کام لينے اور نبيوں کي تکذيب کرنے والوں کو ان کے گناہوں کي جو سزا دي ہے اور جس کا ذکر اس کتاب ميں ہے وہ بھي اس بات کي نشاني ہے کہ آپ الہي رسالت کے حامل ہيں اور اس سورہ کي آخري آيت ميں کفار کے نعرے "لست مرسلا" يعني آپ اللہ کے بھيجے ہوئے نہيں ہيں کے جواب ميں خدا کہتا ہے کہ اللہ کي گواہي آپ کي رسالت کے لئے کافي ہے اور اس قرآن ميں جو حقائق بيان ہوئے ہيں وہ خود آپ کي رسالت کے حق ہونے کے گواہ ہيں چنانچہ اس سورہ ميں بيان شدہ مطالب اور آيات کے سياق اس سورے کے مکي ہونے کي دليل قرار دئے جا سکتے ہيں اور بعض لوگوں نے اس سورے کو جو مدني قرار ديا ہے وہ اس لئے صحيح نظر نہيں آتا کہ اس کے مضامين مسلمانوں کي مدني زندگي کے ساتھ مطابقت نہيں رکھتے - بہرحال تراليس آيات پر مشتمل اس مختصر سورے ميں مجموعي طور پر خدا نے الہي آيات کے وجود اور موجودات عالم کي تسبيح و تقديس کو بيان کرتے ہوئے خدا پر ايمان کے پرتو ميں آرام و سکون کي زندگي بسر کرنے پر تاکيد کي ہے - قرآن کريم کے ديگر اٹھائيس سوروں کي مانند خدا نے سورۂ رعد کا آغاز بھي حروف مقطعات سے کيا ہے ارشاد ہوتا ہے :
بسم اللہ الرّحمن الرّحيم ، المر تلک ايات الکتاب و الّذي انزل اليک من ربّک الحقّ و لکنّ اکثر النّاس لا يؤمنون ( يعني ) شروع کرتاہوں خدائے رحمان و رحيم کے نام سے الف ، لام ، ميم ، را، يہ کتاب خدا کي آيات ہيں اور ( اے ہمارے نبي ص) جو کچھ آپ کے پروردگار کي طرف سے آپ پر نازل ہواہے حق ہے ليکن زيادہ تر لوگ اس کو نہيں مانتے ہيں -
حروف مقطعہ، قرآن حکيم کے ان اسرار و رموز ميں شمار ہوتے ہيں جو مزاج وحي سے آشنا خدا کے نمائندوں کے علاوہ عربي زبان کے بڑے سے بڑے عالم و اديب بھي سمجھنے سے قاصر ہيں ليکن چونکہ قرآن کريم ميں ان حروف کے بعد عام طور پر خود قرآن مجيد کے نام اور نزول کا ذکر ہوا ہے يہ نتيجہ نکالا جا سکتا ہے کہ خداوند عالم يہ بتانا چاہتا ہے کہ اس کي طرف سے نازل شدہ يہ آسماني کتاب ہر زمانے ميں ہر قوم و ملت کے لئے وہ ابدي معجزہ ہے جس ميں توحيد باري تعالي کي نشانيوں کے ذريعہ حق کي دعوت دي گئي ہے اور اگر يہ مطلب پيش نظر رکھيں، آيات الہي پر تدبر و تفکر سے کام ليں تو مبداء معاد پر يقين کے ساتھ يہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو کچھ بھي پيغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوا ہے حق ہے الہي آيات چاہے وہ کائنات ميں پھيلي کتاب تخليق کي آيتيں ہوں يا آپ پر نازل شدہ کلام اللہ کي آيتيں ہوں سب خدائے واحد و يگانہ کي ربوبيت کي نشانياں ہيں اور صرف و صرف حق ہيں اور آيت کے آخر ميں پيغمبر اور ان پر ايمان لانے والي مختصر سي جماعت کو تسکين دي گئي ہے کہ بہت سے لوگ آسماني حقائق پر ايمان نہيں لائيں گے اس سے پريشان ہونے کي ضرورت نہيں ہے الہي آيات بہرحال حق ہيں لوگ ايمان لائيں يا نہ لائيں کوئي فرق نہيں پڑتا - اور اب سورۂ رعد کي دوسري آيت / ارشاد ہوتا ہے:
اللہ الّذي رفع السموات بغير عمد ترونہا ثمّ استوي علي العرش و سخّر الشّمس و القمر کل يجري لاجل مسمي يدبر الامر يفصّل الايات لعلّکم بلقاء ربّکم توقنون (يعني) اللہ کي ہي وہ ذات ہے جس نے آسمانوں کو ستون کے بغير بلند کر رکھا ہے اور عرش پر مسلط و برقرار ہے اور آفتاب و ماہتاب کو جس نے مسخر کررکھا ہے ( اس طرح) کہ ہر ايک معينہ مدت تک کے لئے حرکت کرتے رہيں گے - وہي کائنات کے امور کا مدبر و ناظم ہے اوراپني آيات واضح طور پر بيان کرتا ہے کہ شايد تم کو ( قيامت ميں) اپنے پروردگار کے حضور معاد پر يقين حاصل ہوجائے -
عزيزان محترم! انسان کے حق ميں سب سے عظيم نعمت اور الہي تحفے قرآن مجيد کے نزول کا Иر کرنے کے بعد اس آيت ميں اللہ کي ربوبيت کي دليل پيش کي گئي ہے کہ وہ خدائے واحد و يگانہ اپنا مثل و شريک نہيں رکھتا کسي بھي شے کو بلندي پر قائم رکھنے کے لئے ستون کي ضرورت پڑتي ہے اور اللہ نے تمہاري نگاہوں کے سامنے پھيلے اس بلند و بالا آسمان کو تمہيں دکھائي دينے والے کسي بھي ستون کے بغير قائم کرديا ہے اور اس ميں ايک پورا نظام کار فرما ہے جو اللہ کے قبضہ و اختيار ميں ہے اور اسي کے حکم سے سورج اور چاند ايک وقت معين کے لئے حرکت کررہے ہيں يا دونوں اپني اپني منزلوں کي طرف رواں دواں ہيں سورج اپنا ايک دورہ سال ميں اور چاند ايک دورہ مہينے ميں پورا کرليتے ہيں ظاہر ہے يہ نظام کسي کے اختيار ميں ہے جب تو بغير کسي خلل کے چل رہا ہے وہ ناظم و مدبر خدا کے سوا کون ہو سکتا ہے ؟ قرآن نے ان نشانيوں کي وضاحت کي ہے کہ شايد تم اپنے پروردگار کي ربوبيت پر يقين کرلو اور اللہ کو ہي اپنا پروردگار مانو جس طرح يہ کائنات اللہ کے فيصلے اور ارادہ کے تحت قدرت الہي کے مدار پر قائم ہے اسي طرح تمام موجودات عالم منجملہ انسان کو بھي اپنے تمام احوال ميں خدا کي ضرورت ہے اس کي قدرت مطلقہ کے تحت ہي انسان تمام حالات ميں جيتا اور مرتا ہے - کوئي بھي پروردگار سے بے نياز نہيں ہے - اور اب زير بحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا ايک خلاصہ :
کسي مذہب مکتب يا مسلک کے قبول کرنے يا نہ کرنے کي بنياد اس کا حق ہونا يا نہ ہونا ہے ماننے والوں کي اکثريت يا اقليت حقانيت کي دليل نہيں ہے بہت ممکن ہے لوگوں کي اکثريت ايک حق بات کو نہ مانتي ہو بلکہ يہ بھي ممکن ہے کہ روشن و واضح دليلوں کے باوجود ، گوناگوں وجوہات کي بنا پر حق کو حق ماننے سے گريز کرے -
مومنين کو يہ بات جاننا اور قبول کرلينا چاہئے کہ تمام لوگ صاحب ايمان نہيں ہوسکتے لہذا اکثريت ميں موجود باطل کي مخالفتوں سے گبھرانے کے بجائے ان کي مخالفت کے لئے خود کو تيار رکھنا چاہئے -
کائنات کا پورا نظام ايک مدبر و ناظم پروردگار کے ہاتھ ميں ہے جو اس کا خالق بھي ہے اور مدبر بھي، اس کے ارادہ و اختيار سے باہر کچھ بھي نہيں ہے -
عالم ہستي کا وجود و استقرار خود اس کے با مقصد ہونے کي دليل ہے کيونکہ اس کائنات کا خالق حکيم ہے اور حکيم کا کوئي کام حکمت و مصلحت سے خالي نہيں ہوتا -
قرآن اللہ کا سب سے عظيم معجزہ ہے اور سب سے عظيم الشان نبي (ص) کي نبوت و رسالت کا سب سے عظيم ثبوت ہے -
بشکريہ آئي آر آئي بي
متعلقہ تحريريں:
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 105-102 کي تفسير
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 101-100 کي تفسير سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 99-96 کي تفسير
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 95-92 کي تفسير
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 88-91 کي تفسير