سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 109-107کي تفسير
"افامنوا ان تاتيہم غاثيۃ مّن عذاب اللہ او تاتيہم السّاعۃ بغتۃ وّ ہم لا يشعرون " ( يعني يہ ايمان نہ لانے والے ) کيا ( اس بات سے) امان ميں ہيں کہ کہيں الہي عذاب ان کو گھيرے ميں نہ ليلے يا کہيں قيامت ناگہاني طور پر نہ آجائے اور ان کو کوئي خبربھي نہو-
خداوند عالم نے اپنے حبيب کو يہ اطمينان دلانے کے بعد کہ يہ لوگ اگر ايمان نہيں لا رہے ہيں تو آپ رنجيدہ نہ ہوں اس ميں آپ کي تبليغ کا کوئي قصور نہيں ہے بلکہ ان کي بدبختي ہے يہ لوگ تو زمين اور آسمانوں ميں بکھري ہوئي اللہ کي بے شمار نشانيوں کے ديکھنے کے بعد خدا پر ايمان نہيں رکھتے يا ايمان لاتے بھي ہيں تو اس کے شريک بناليتے ہيں ان ميں مومن مخلص بہت ہي کم افراد مليں گے، زير گفتگو آيت ميں ، خداؤ رسول پر ايمان نہ لانے والوں کو ان کي جہالت کے سلسلے ميں خبردار کيا ہے کہ يہ لوگ کس گمان ميں مبتلا ہيں کيا يہ لوگ اسي دنيا ميں الہي عذاب سے جوان کے سروں پر منڈلارہا ہے خودکو مامون و محفوظ اور مطمئن سمجھتے ہيں اور کيا انہيں قيامت کي کوئي فکر نہيں ہے جو اچانک ہي کسي بھي وقت آسکتي ہے انہيں اس کے آنے کي کوئي خبر بھي نہيں ہوگي وہ اپنے گناہوں کے ساتھ وہاں حاضر ہوں گے اور جہنم ميں ڈال دئے جائيں گے -اور اس کے بعد سورۂ يوسف (ع) کي آيت ايک سو آٹھ ميں خدا اپنے نبي (ص) کو خطاب کرکے کہتا ہے : قل ہذہ سبيلي ادعوا الي اللہ علي بصيرۃ انا و من اتبّعني و سبحان اللہ و ما انا من المشرکين(يعني) اے ہمارے پيغمبر (ص) ! ان لوگوں سے کہديجئے ميرا راستہ يہي ( راہ توحيد) ہے ميں اور وہ شخص جو ميرا پيرو ہے دونوں لوگوں کو بصيرت کي بنياد پر خدا کي طرف دعوت ديتے ہيں خدا(ہر شے سے) منزہ اور بے نياز ہے اور ميں مشرکين ميں نہيں ہوں -عزيزان محترم! اس آيت ميں اللہ نے لوگوں کو حق و حقيقت کي طرف بلانے کے سلسلے ميں رسول اسلام (ص) کا طريقہ بيان کيا ہے اور معين کرديا ہے کہ پيغمبر اسلام (ص) اور ان کي راہ پر چلنے والے سچے اور مخلص مسلمان اپني شناخت و پہچان اور بصيرت و خرد کي بنياد پر لوگوں کو دين توحيد کي طرف بلاتے ہيں گويا راہ رسول يہي ہے ليکن تبليغ دين کي ذمہ داري صرف ان کے کندھے پر نہيں ہے دوسرے بھي دعوت ديں ليکن دعوت ايمان کي اساس، معرفت و بصيرت پر قائم ہوني چاہئے تا کہ لوگ پہلے خدا و رسول (ص) کو پہچانيں اور اس کے بعد ان پر ايمان لائيں، پہلے قرآن کا وحي الہي اور اللہ کا کلام ہونا لوگ اچھي طرح جان اور پہچان ليں اور اس کے بعد اس کي صداقت اور ہدايت پر ايمان لائيں- مرسل اعظم (ص) نے تبليغ دين ميں اسي روش پر عمل کيا ہے اور ان کي راہ پر چلنے والوں کا بھي طريقہ يہي ہے - اس کا فائدہ يہ ہے کہ اہل ايمان چونکہ سمجھ بوجھ کر مسلمان ہوئے ہيں وہ اسلام کي راہ ميں ثبات و استقامت سے کام ليں گے اپني جان قربان کرديں گے مگر راہ حق سے منحرف نہيں ہوں گے وہ کبھي کسي کو اللہ کا شريک نہيں بنائيں گے کيونکہ اللہ ہر طرح کے شريک و مشير، نظير و مثيل اور باپ بيٹے اور بيوي سے بے نياز اور پاک و منزہ ہے يقينا" عقيدہ و عمل ميں شرک اور نفاق ايمان ميں کمزوري اور بے يقيني کي دليل ہے اور پيغمبر (ص) ظاہر ہے ہر طرح کے شرک سے دور ہيں اور اس راہ ميں پورے اخلاص کے ساتھ لوگوں کے درميان دعوت توحيد ميں ان کے پيرو، صرف علي ابن ابي طالب (ع) ( کرم اللہ وجہہ) نظر آتے ہيں جن کے دامن پر شرک کا کوئي دھبہ نہيں ہے اور اب سورۂ يوسف(ع) کي آيت ايک سو نو/ ارشاد ہوتا ہے :
و ما ارسلنا من قبلک الّا رجالا" نّوحي اليہم مّن اہل القري افلم يسيروا في الارض فينظروا کيف کان عاقبۃ الّذين من قبلہم ولدار الاخرۃ خير للّذين اتّقوا افلا تعقلون ( يعني اے ہمارے نبي ) آپ سے پہلے بھي ہم نے ( کسي کو نبي کے طور پر) نہيں بھيجا مگر يہ کہ ان ہي مردوں کو ( نبوت دي ہے ) جو آباد بستيوں ميں رہتے تھے اور ہم نے ان پر وحي بھي کي ہے کيا ( آپ کي رسالت کا ) انکار کرنے والوں نے زمين کي سير نہيں کي ہے کہ ان سے پہلے گزرجانے والوں کاانجام وہ مشاہدہ کرتے ؟ يقينا" جن لوگوں نے تقوي اختيار کيا ہے سرائے آخرت ان کي بہترين منزل ہے ( اے لوگو!) کيا تم لوگ عقل و فکر سے کام نہيں ليتے؟!
خداوند جليل نے پہلے تو عام لوگوں کے ايمان کي حالت بيان کي کہ زيادہ تر مسلمانوں کا ايمان شرک کے ساتھ آغشتہ ہے اس کے بعد خود رسول اسلام (ص) کي راہ اور طريقۂ تبليغ کا ذکر کيا کہ وہ اور ان کے مخلص پيرو بصيرت و شناخت کي بنياد پر لوگوں کو توحيد کي دعوت ديتے ہيں ان کي تبليغ رسالت الہيہ کي حامل ہے مادي اغراض و مقاصد کا جس ميں کوئي شائبہ بھي نہيں ہے اور اب اس آيت ميں خدا فرماتا ہے کہ يہ طريقہ کوئي نيا طريقہ نہيں ہے بلکہ شروع سے ہي يہ سنت الہيہ رہي ہے گزشتہ انبياء(ع) کي دعوت توحيد کا يہي طريقہ رہا ہے انبياء(ع) ہميشہ ان ہي مردوں کے درميان سے اللہ نے مبعوث کئے ہيں جو متعلقہ بستيوں ميں رہتے تھے لوگ ان کو جانتے اور پہچانتے تھے فرق صرف يہ تھا کہ ان پر ہماري طرف سے وحي ہوتي تھي اور وہ سبھي الہي پيغام لوگوں تک پہنچاتے رہے ہيں - در اصل، نبي اکرم (ص) کي نبوت و رسالت کے منکرين کا ايک اعتراض يہ تھا کہ اگر خدا کو رسول بنا کر کسي کو بھيجنا تھا تو کسي فرشتے کو بھيج ديتا ، ہمارے ہي جيسے ايک آدمي کو الہي رسالت دينے، کي کيا ضرورت ہے کہ وہ ہم پر برتري جتائے آيت ميں اسي کا جواب ہے کہ کيا ان لوگوں نے گزشتہ انبياء (ع) کي تاريخ نہيں پڑھي اور سني ہے وہ سب بھي تو فرشتے نہ ہوکر انسان ہي تھے اور دوسرے انسانوں کے درميان ان کي بستيوں ميں ہي رہتے تھے سب ان کو جانتے اور پہچانتے تھے، ہماري طرف سے وحي اور ہم سے رابطہ ان کا سب سے بڑا امتياز تھا- اور يہي امتياز ہمارے آخري نبي کا بھي ہے ہم نے ان کو نبوت و رسالت دي ہے وحي کي صورت ميں قرآن نازل کيا ہے کہ اس کي بنياد پر لوگوں کو توحيد و رسالت کي دعوت ديں -لوگ زمين پر گھوم پھر کر ديکھتے کيوں نہيں کہ گزشتہ انبياء (ع) کا انکار کرنے والوں کا انجام کيا ہوا ہے کتني آبادياں کھنڈروں ميں تبديل ہوگئيں - ان لوگوں کے حق ميں بہتر يہي ہے ، کہ تقوي اختيار کريں اور خدا سے ڈريں تا کہ کامياب و رستگار ہوسکيں، آخرت کے گھر سے بہتر اور کون سي منزل ہوسکتي ہے -چنانچہ مفسرين نے اس آيت کو نص قرار دے کر کہا ہے کہ خدا کے تمام نبي، شہر، ديہات يا قصبوں ميں آباد ان ہي مردوں کے درميان سے مبعوث ہوئے ہيں جو بستيوں ميں جانے پہچانے ممتاز افراد تھے عورتوں يا صحرا نشين غير معروف مردوں کو اللہ کي نبوت و رسالت نہيں ملي ہے بہرحال خدا اپني مصلحتوں کو بہتر جانتا ہے - اور اب زير بحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا ايک خلاصہ :
جو شخص خدا و رسول پر ايمان نہ رکھتا ہو خود کو امن و امان ميں محسوس نہ کرے ہوشيار رہے بہت ممکن ہے اسي دنيا ميں الہي عذاب اس کو گھيرلے اور حفاظت کے تمام وسائل دھرے کے دھرے رہ جائيں ورنہ آخرت کے عذاب سے تو نجات مل ہي نہيں سکتي -
الہي عذاب کي ياد دہاني انسان کو گناہوں سے دور رکھنے ميں بہت مؤثر ہوتي ہے اس لئے خدا کي ياد سے کبھي غافل نہيں ہونا چاہئے -
دين و مذہب کے مبلغين خصوصا" مسلمان علماؤ واعظين کو ہميشہ معرفت و بصيرت کي بنيادوں پر لوگوں کو دين کي دعوت دينا چاہئے تا کہ دل و جان کے ساتھ لوگ دين خدا کو قبول کريں اور شرک سے محفوظ رہيں -
تمام انبياء عليہم السلام منجملہ ختمي مرتبت حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم ، اپني امتوں کے درميان سے ہي رسالت پر مبعوث ہوئے ہيں وہ سب انسان تھے فرشتے يا کسي اور مخلوق سے تعلق نہيں رکھتے تھے -
انبياء (ع) کا امتياز يہ ہے کہ وہ وحي کے ذريعہ الہي پيغامات ليتے اور امت تک من و عن پہنچا ديتے ہيں کسي قسم کي تحريف يا خيانت نہيں کرتے-قرآن نے تمام انسانوں کو سير وسياحت کي دعوت دي ہے کہ وہ روئے زمين پر گھوم پھر کر گزشتہ قوموں کے انجام کا نظارہ کريں اور اس سے عبرت و نصيحت حاصل کريں -انبياء عليہم السلام کي راہ اور ان کے مکتب کي شناخت و معرفت ميں عقل و خرد سے مدد ملتي ہے عقل و فکر کو بروئے کار لانے پر لوگوں کو آمادہ کرنا مبلغين دين کا اہم ترين فريضہ ہے-
بشکريہ آئي آر آئي بي
متعلقہ تحريريں:
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 95-92کي تفسير
سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 88-91 کي تفسير
سورۂ يوسف (ع) کي آيت نمبر 87 - 85 کي تفسير
سورۂ يوسف ( ع) کي آيت نمبر 84 - 80 کي تفسير
زير بحث آيات 76 تا 79 سے جو سبق ملتے ہيں ان کا خلاصہ