سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 101-100 کي تفسير
مرسل اعظم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلّم اور ان کے اہل بيت مکرم پر درود و سلام کے ساتھ آسان و عام فہم تفسير کے سلسلہ وار پروگرام پیام قرآن ميں آج ہم اپني گفتگو سورۂ يوسف (ع) کي آيت نمبر سو کي تلاوت سے شروع کر رہے ہيں
، ارشاد ہوتا ہے :
" و رفع ابويہ علي العرش و خرّوا لہ سجّدا و قال يا ابت ھذا تاويل رء ياي من قبل قد جعلہا ربّي حقّا و قد احسن بي اذ اخرجني من السّجن و جاء بکم من البدو من بعد ان نّزغ الشّيطان بيني و بين اخوتي انّ ربّي لطيف لّما يشاء انّہ ہو العليم الحکيم -" ( يعني حضرت يوسف ع نے ) اپنے والدين کو تخت پر ايک بلند جگہ بٹھايا اور سب کے سب ان کے سامنے سجدہ ريز ہوگئے يوسف (ع) نے کہا : بابا ! يہ اسي خواب کي تعبير ہے جو ميں نے پہلے ديکھا تھا ميرے پروردگار نے اس کو سچا کردکھايا يقينا اس کا مجھ پر بڑا احسان ہے (اس وقت بھي ) جب اس نے مجھ کو جيل سے نکالا اور آپ لوگوں کو ( کنعان کے ) بياباں سے مصر لے آيا ( اور يہ کام اس وقت کيا ) جب شيطان نے ميرے اور ميرے بھائيوں ميں اختلاف ڈال ديا تھا يقينا ميرا پروردگار اپنے فيصلوں کو بہترين نظم و تدبير عطا کرنے والا اور بڑا ہي جاننے اور حکمت سے کام کرنے والا ہے -
جيسا کہ آپ کے پيش نظر ہے مصر پہنچنے کے بعد حضرت يوسف عليہ السلام نے حضرت يعقوب (ع) اور اپنے تمام اہل خاندان کا بڑي گرمجوشي سے استقبال کيا اور سينے سے لگا کر سر و آنکھوں پر والدين کو جگہ دي اور نہايت عزت و تکريم کا مظاہرہ کيا اور اب اس آيت ميں مزيد وضاحت ہے کہ حضرت يوسف (ع) نے والدين کو اپنے پاس بالائے تخت بلند مقام پر بٹھايا تا کہ والدين کي عظمت واضح ہو کہ عزيز مصر پر بھي والدين کي عزت و تکريم لازم ہے اور اس کے فورا ہي بعد قرآن کہتا ہے کہ سب کے سب حضرت يوسف (ع) کي عظمت کے سامنے خاک پر سجدہ ريز ہوگئے يعني جناب يوسف (ع) کے عظمت کردار نے سب کو ان کے سامنے تعظيمي سجدہ بجا لانے پر مجبور کرديا ظاہر ہے يوسف (ع ) کا يہ سجدہ عبادت و پرستش کي نيت سے نہيں تھا صرف احترام و عزت کے طور پر تھا جو ايک موحد خالص حضرت يعقوب (ع) سميت دربار ميں موجود سبھي افراد نے کيا تھا ويسے ہي جيسے خدا کے حکم پر تمام فرشتوں نے حضرت آدم عليہ السلام کا تعظيمي سجدہ کيا تھا ( و اذ قلنا للملائکۃ اسجدوا لادم فسجدوا الّا ابليس ابي -" طہ / 116 " ) يعني جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم سب آدم کے لئے سجدہ کرو تو ابليس کے سوا سب نے ان کا سجدہ کيا - علاوہ ازيں يہ سجدہ اس يوسف (ع) کے سامنے کئے گيا تھا جس نے اپنے زنداني دوست کے سامنے نصيحت کرتے ہوئے کہا تھا :
" ما کان لنا ان نّشرک باللہ من شي ء " يہ بات ہم کو زيب نہيں ديتي کہ ہم کسي کو خدا کا شريک قرار ديں ( يوسف / 38 ) اور وہ ہرگز کسي کو اپنے سامنے " سجدۂ بندگي " کي اجازت نہيں دے سکتے تھے - يقينا سجدہ گزاروں نے يوسف (ع) کے يہاں الہي آيات کا مشاہدہ کيا اور کعبہ کي طرح انہيں قبلہ قرار دے کر خدا کا شکر ادا کيا ہوگا ظاہر ہے کعبہ کو کوئي خدا نہيں کہتا صرف خدا کا گھر سمجھ کر قبلہ قرار ديتا ہے اور تعظيم کے طور پر " قبلہ " قرار دينا بہرحال جائز ہے -
يہ کہنا کہ " سجدۂ تعظيمي يعقوب عليہ السلام کي شريعت ميں جائز تھا اور اسلام ميں شرک کے سدباب کے لئے سجدۂ تعظيمي کو بھي حرام کرديا گيا " ايک دعوي' بلا دليل ہے توحيد ابراہيمي (ع) اور توحيد محمدي (ص) ميں کوئي فرق نہيں ہے غير خدا کے لئے سجدۂ تعبدي وہاں بھي حرام تھا اور دين اسلام ميں بھي حرام ہے -چنانچہ يہ کہنا بھي صحيح نہيں ہے کہ اس زمانہ ميں بزرگوں کي تعظيم کے لئے " سجدہ " مرسوم تھا اور ابھي اس کي حرمت کا حکم نہيں آيا تھا اس لئے يوسف (ع) کا سجدہ کيا گيا يا کہ اس زمانہ ميں سلام کي طرح سجدہ بھي تحيت و تعظيم ميں شمار ہوتا تھا بظاہر ايک نامعقول توجيہ ہے البتہ بعض نے اس کو الہي نعمتوں کے مقابلے ميں سجدۂ شکر قرار ديا ہے اور يہ بھي سياق کے ساتھ ميل نہيں کھاتا ، خدا کے شکرانہ کے لئے يوسف (ع ) کے سامنے سجدہ اور خود يوسف (ع) کا سجدۂ شکر ميں شريک نہ ہونا بتاتا ہے کہ يہ تعظيمي سجدہ تھا جو حضرت يوسف (ع) کے لئے ہي تھا اسي لئے يوسف (ع) نے جب ديکھا حضرت يعقوب (ع) ان کي مادر گرامي اور ان کے تمام بھائيوں نے ان کے احترام ميں زمين پر سر رکھ ديا ہے اور ان کے سامنے سجدہ ريز ہيں تو انہيں اپنا خواب ياد آگيا جس ميں انہوں نے سورج اور چاند کے ساتھ گيارہ ستاروں کو اپنے سامنے سجدہ ريز ديکھا تھا اور اس کا ذکر باپ سے کيا تھا چنانچہ آج جب اس کي تعبير نظر آئي تو باپ کو ياد دلايا " بابا يہ سجدہ اسي خواب کي تعبير ہے جو ميں نے بچپن ميں ديکھا تھا ميرے معبود نے آج اس خواب کو حقيقت ميں بدل ديا ہے" اور پھر شکر کے طور پر خدا کي حمد و ثنا شروع کردي کہ ميرے پروردگار نے کس طرح مجھ کو قيدخانے کي بلا سے نجات عطا کردي اور ايک بلا کو نعمت ميں تبديل کرديا يعني قيد کو ہي عزت و حکمراني کے مقام تک پہنچنے کا ذريعہ بناديا - يہاں قابل توجہ بات يہ ہے کہ جناب يوسف (ع) نے الطاف الہي کا ذکر کرتے وقت بھي ، بھائيوں کے ہاتھوں کنويں ميں ڈالے جانے اور وہاں سے لطف پروردگار کے تحت نجات پانے کا کوئي ذکر نہيں کيا کيونکہ بھائيوں کي موجودگي ميں اس کا ذکر ان کي شرمندگي اور دل شکني کا باعث بنتا جسے يوسف (ع) کي فتوت اور جواں مردي ہرگز قبول کرنے پر تيار نہيں تھي لہذا بڑے حسين انداز ميں پوري داستان کو ايک جملے ميں اس طرح باپ سے کہديا کہ بھائيوں کے حق ميں طعن و تشنيع کا ہلکا سا گمان بھي نہ ہو کہتے ہيں: ميرے اللہ نے مجھ پر يہ بھي احسان کيا کہ آپ لوگوں کو ايک صحرا سے نکال کر ميرے پاس ايسے حالات ميں بھي مصر پہنچا ديا کہ شيطان نے ميرے اور ميرے بھائيوں کے درميان زبردست اختلاف پيدا کرديا تھا اور شيطان کي اس حرکت کے سبب اگرچہ مجھے سختيوں اور مصيبتوں ميں مبتلا ہونا پڑا ليکن اللہ کے لطف و احسان نے تمام مشکلات برطرف کرديں اور آج عزت و احترام کي اس منزل پر مجھے فائز کرديا ہے - ظاہر ہے عزيز مصر کي ناموس کي طرف سے لگائے گئے الزام کي سزا بھگتنے والے قيدي کي پوري عزت و نيکنامي کے ساتھ آزادي اور شاہ مصر کي طرف سے اپنے معتمد خاص کے طور پر ملک کے اعلي ترين اختيارات کا حصول ايک طرف اور پھر کنعان کے ايک صحرا ميں زندگي بسر کرنے والے باپ يعقوب (ع) کي مصر جيسے متمدن شہر ميں آمد اور ايک مدت کي جدائي کے بعد باپ بيٹے کي ملاقات دوسري طرف اور شيطان سے مغلوب بھائيوں کے دلوں ميں جلن و حسد کے بجائے محبت و اخلاص کے کنول کھل جانا تيسري طرف الہي لطف کا ہي نتيجہ ہوسکتا ہے - اللہ ہي اپنے لطف خاص سے انہوني کو ہوني ميں بدلتا اور جو چاہتا ہے جس طرح چاہتا ہے انجام ديتا ہے بلاؤں ميں نعمت ، ذلت و بردگي ميں عزت و سلطنت اور جلن و حسد ميں محبت کے پھول کھلادينا اللہ کا ہي کام ہے جو لطيف بھي ہے اور عليم و حکيم بھي؛ اور اب سورۂ يوسف کي آيت ايک سو ايک :
ربّ قد اتيتني من الملک و علّمتني من تاويل الاحاديث فاطر السّموات و الارض انت وليّي في الدّنيا و الآخرۃ توفّني مسلما" وّ الحقني بالصّالحين ( يعني يوسف عليہ السلام نے کہا ) : پروردگار تو نے مجھ کو ملک بھي عطا کيا اور خواب کي تعبير دينا بھي مجھے تعليم ديا اے آسمانوں اور زمين کے پيدا کرنے والے! دنيا ؤ آخرت ميں تو ہي ميرا ولي و سرپرست ہے مجھے دنيا سے مسلمان اٹھانا اور نيکوکاروں کے ساتھ محشور و ملحق کردينا -
عزيزان محترم ! حضرت يوسف(ع) نے خدا کي حمد و ثنا اس کے احسانات اور مختلف بلاؤں سے نجات کا ذکر کرتے ہوئے چاہا ہے کہ ان نعمتوں کا بھي ذکر ہوجائے جو خدا نے اپنے لطف خاص سے ان کے لئے مخصوص قرار دي ہيں اور ايسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دوران وہ اپنے معبود ميں اس قدر غرق ہوجاتے ہيں کہ غير خدا کا کوئي خيال ہي ذہن ميں نہيں آتا حتي اپنے باپ يعقوب(ع) کو بھي کہ جن سے محو گفتگو تھے فراموش کرکے خدا کے تصور ميں کھوجاتے ہيں پروردگارا ! تو ہي ہے جس نے مجھ کو اس مقام سلطنت و حکومت تک پہنچايا ہے اور تو نے ہي مجھے احاديث کي تاويل کا سليقہ عطا کيا ہے کيوں نہ ہو تو ہي کائنات پر تصرف اور ولايت مطلقہ کا مالک ہے آسمانوں کا اور زمين کا خالق اور چھوٹي بڑي دنيا ؤ آخرت کا تو ہي حکمراں اور ولي و سرپرست ہے - ميں بھي تيرے انبيائے مخلصيں کي طرح تيري ولايت تامہ کو قبول کرتا ہوں اور خود کو پوري طرح تيري بندگي و اطاعت ميں تسليم کررہا ہوں اور تيرے حقير بندہ کي طرح التجا کرتا ہوں کہ دنيا ميں بھي جب تک رہوں تيرا مسلمان بن کر رہوں اور مسلمان مروں اور آخرت ميں جب اٹھايا جاؤں تو بھي تيرے مخلص بندوں کے ساتھ رہوں - يہاں يہ بات بھي قابل توجہ ہے کہ قرآن نے مصر ميں دو افراد کي حکومت کا ذکر کيا ہے ايک يوسف(ع) کي حکومت ہے جو اپني حکومت خدا کا عطيہ اور من جانب اللہ مخصوص لطف سمجھتے تھے اور خدا کي بارگاہ ميں سراپا تسليم تھے اور ايک فرعون کي حکومت کا ذکر ہے جو خود کو بندوں کا پروردگار اور قوم کو اپني مملوک تصور کرتا تھا اور خود سر و متکبر تھا اور موسي (ع) کے ہاتھوں اپنے کيفر کردار کو پہنچا ہے -اور اب زير بحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا ايک خلاصہ : انسان چاہے کسي بھي منصب و مقام پر فائز ہوجائے والدين کا احترام واجب ہے اور کوشش کرنا چاہئے کہ بہترين انداز ميں ان کي خدمت اور تکريم انجام دے تا کہ خدا راضي رہے - اگرچہ انسان کو خدا نے ارادہ ؤ اختيار کا مالک بنايا ہے اور وہ اپنے اچھے برے تمام افعال ميں مختار ہے ليکن اللہ تمام خوبيوں کا سرچشمہ ہے اور شيطان تمام برائيوں کا باعث بنتا ہے اور شيطان کے شر سے خدا ہي انسان کو محفوظ رکھ سکتا ہے لہذا خدا کو کسي بھي حال ميں فراموش نہيں کرنا چاہئے -
جن لوگوں نے ہمارے حق ميں برائي اور ظلم و ستم سے کام ليا ہے انہيں احساس شرمندگي ہو تو معاف کردينا چاہئے خصوصا" بھائيوں سے کينہ ؤ انتقام کے بجائے محبت و مہرباني کا برتاؤ نہ صرف خدا پر ايمان کي دليل بلکہ جواں مردي کي بھي علامت ہے -
انسان کو ہميشہ اپنے انجام پر نظر رکھني چاہئے اور دنيا کے جھميلوں ميں دين و ايمان کي حفاظت کے لئے ہميشہ اپنے معبود سے دعائيں کرتے رہنا چاہئے -* حکومت اور اقتدار عموما" آدمي کو ايمان سے دور کرکے گناہ و سرکشي کي راہ پر لگا ديتا ہے ، عام لوگوں کے مقابلے ميں حکام کي گمراہي کے خطرات بہت زيادہ ہيں اس بات سے ہميشہ ہوشيار رہنا چاہئے -* جناب يوسف(ع) کي طرح خدا کے مخلص بندے ہميشہ مسلمان جينے اور مسلمان مرنے کي دعا کرتے ہيں تا کہ آخرت ميں بھي نيکوکاروں کا ساتھ نصيب ہو -
بشکريہ آئي آر آئي بي
متعلقہ تحريريں:
سورۂ يوسف (ع) کي آيت نمبر 87 - 85 کي تفسير
سورۂ يوسف ( ع) کي آيت نمبر 84 - 80 کي تفسير
زير بحث آيات 76 تا 79 سے جو سبق ملتے ہيں ان کا خلاصہ
سورۂ يوسف ( ع) کي آيت نمبر 78-79 کي تفسير
سورۂ يوسف ( ع) کي آيت نمبر 77 کي تفسير