سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 95-92کي تفسير
رحمت دو عالم سرکار ختمي مرتبت اور ان کي پاکيزہ عترت پر درود و سلام کے ساتھ آسان و عام فہم تفسير کے پروگرام پيام قرآن ميں آج ہم اپني يہ سلسلہ وار گفتگو سورۂ يوسف کي آيات 92 اور ترانوے کي تلاوت اور ترجمہ و تشريح کے ساتھ شروع کررہے ہيں ارشاد ہوتا ہے :
آج کے دن آپ کے لئے کوئي ملامت و مزمت نہيں ہے خداوند عالم آپ سب کو بخش دے گا اور وہ مہربانوں ميں بہترين رحم کرنے والا ہے ميري يہ قميص لے کر جائيے اور اس کو ميرے والد کے چہرے پر ڈالديجئے ديکھنے لگيں گے اور پھر اپنے تمام گھروالوں کو اپنے ساتھ يہاں لے آئيے - حضرات ! جيسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمايا جس وقت حضرت يوسف (ع) کو ان کے بھائيوں نے پہچان ليا کہ عزيز مصر يوسف (ع) ہي ہيں تو ان کے ساتھ اپني زيادتياں اور قحط کے پريشان کن حالات ميں ان کي طرف سے کي جانے والي تمام مہربانياں آنکھوں کے سامنے آگئيں اور وہ شرمندہ و درماندہ اپني خطائيں قبول کرلينے پر مجبور ہوگئے مگر يوسف (ع) نے نفس کريمانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کي تمام غلطيوں کو ان کي ناداني پر محمول کرديا اور جب انہوں نے اللہ کي قسم کھاکر يوسف (ع) کي برتري اور اپني خطاؤں کا اقرار کيا تو يوسف (ع) نے اعلان کرديا کہ آج کے دن کسي طرح کي ملامت و سرزنش نہيں ہے خدا بڑا رحيم و مہربان ہے وہ آپ سب کو معاف کردے گا -آگے بڑھ کر ان سب کو گلے لگاليا اور کہا يہ کس قدر شکر کا مقام ہے کہ آج ہم سب بھائي ايک ساتھ ہيں ہر طرح کا حسد ، کينہ اور غلط فہمياں ہمارے درميان دور ہوچکي ہيں؛ چنانچہ تاريخ اسلام ميں فتح مکہ کے موقع پر جس وقت مرسل اعظم (ص) کے بعض اصحاب نے دشمنان اسلام کے خلاف، آزار و اذيت کا انتقام لينے کے لئے، مسلمانوں کو اکسايا اور ورغلايا تو رسول رحمت (ص) نے عام معافي کا اعلان کرديا کہ آج انتقام کا دن نہيں رحمت کا دن ہے ، کفار و مشرکين سے خطاب فرمايا آج تم لوگ مجھ سے کيا توقع رکھتے ہو انہوں نے کہا وہي جو ايک بيٹا اور بھائي اپنے کريم باپ اور کريم بھائي سے رکھتا ہے حضور اکرم (ص) نے فرمايا : " جاؤ آج کے دن تم سب آزاد کئے جاتے ہو تم سے کوئي جواب طلب نہيں کيا جائے گا جيسے ميرے بھائي يوسف (ع) نے اپنے بھائيوں سے کہا تھا " لا تثريب عليکم اليوم " آج تمہاري کوئي ملامت اور سرزنش نہيں کي جائے گي؛ گويا اس روايت ميں اس نکتے پر توجہ رکھي گئي ہے کہ صاحبان اقتدار کو اپنے خطاکاروں کے ساتھ انتقام کے بجائے عفو و بخشش سے کام لينا اور خدا کا منت گزار ہونا چاہئے کہ اس نے يہ اقتدار عطا کيا ہے -بہرحال يوسف( ع) نے سب کچھ بھول کر جب بھائيوں کو گلے لگاليا اور تمام گلے شکوے جاتے رہے تو بھائيوں نے باپ کي بيتابي اور روروکر آنکھوں کي بصارت کھو دينے کا ذکر کيا اور يوسف (ع) بھي باپ کے ديدار کے لئے بے چين ہوگئے مگر فريضے کي ادائگي باپ کي قدم بوسي ميں مانع تھي لہذا بھائيوں کو اپني ايک قميص دے کر فرمائش کي کہ کنعان واپس جائيں اور يہ قميص باپ کے چہرے سے لگاديں آنکھ کي روشني واپس آجائے گي اور پھر پورے گھر کو ساتھ لے کر مصر واپس آجائيں - يہاں يہ بھي ايک دلچسپ حقيقت ہے کہ بيٹے کي محبت ميں آنکھوں کي روشني سے محروم ہونے والا باپ خود بھي خدا کا نبي اور مستجاب الدعوہ پيمبر ہے مگر چونکہ اللہ کا فيصلہ يہ تھا يوسف (ع) کا پيراہن شفا کا باعث بنے اس لئے خدا نے اپنا يہ اعجاز اسي شکل ميں دکھايا کہ يوسف (ع) کا عشق بھي نماياں ہوجائے اور يوسف (ع) کا اعجاز بھي سب پر آشکار ہوجائے اور دنيا سمجھ لے کہ اللہ کے انبياء و اوليا بذات خود بھي صاحب معجزہ ہوسکتے ہيں اور ان سے منسوب چيزيں مثلا" نبي کا پيراہن بھي صاحب کرامت ثابت ہوسکتا ہے اور جناب يعقوب (ع) کا يوسف (ع) کي قميص سے تمسک و توسل نہ شرک ہے نہ بدعت بلکہ ايک نبي کا دوسرے نبي کے ساتھ اظہار عشق و محبت ہے جس کو قرآن نے ايک سيرت کے عنوان سے نقل کيا ہے -اور اب سورۂ يوسف (ع) کي آيات چورانوے اور پچانوے ارشاد ہوتا ہے : و لمّا فصلت العير قال ابوہم انّي لاجد ريح يوسف لو لا ان تغنّدون قالوا تاللہ انّک لفي ضلالک القديم اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا تو( کنعان ميں ) ان کے باپ نے ( گھروالوں سے ) کہا اگر تم لوگ مجھ پر سٹھيا جانے کا الزام نہ دھرو تو سنو ميں اپنے يوسف (ع) کي خوشبو محسوس کررہا ہوں - ( يہ سنکر گھروالوں نے ) کہا : اللہ کي قسم آپ تو اپنے وہي پرانے وہم و خيال ميں مبتلا ہيں -حضرت يعقوب (ع) اور حضرت يوسف (ع) کے درميان باپ بيٹے کے ظاہري رشتے سے قطع نظر نبوت کا ايک ايسا معنوي رشتہ تھا جس کے تحت ادھر مصر سے يوسف ( ع) کا پيراہن لے کر ان کے بھائيوں کا کارواں کنعاں کي طرف روانہ ہوا اور ادھر کنعان ميں يعقوب (ع) نے ان کي خوشبو محسوس کرلي مگر چونکہ گھروالے وہ معرفت نہيں رکھتے تھے اور يعقوب (ع ) کو معلوم تھا لہذا انہوں نے کہا کہ اگر تم لوگ يہ نہ سمجھو کہ ميرا دماغ ٹل گيا ہے تو ميں تم کو بتاتا ہوں کہ مجھے اپنے يوسف (ع) کي خوشبو محسوس ہورہي ہے مگر گھر کے تمام افراد چونکہ يوسف (ع) کے سلسلے ميں بھيڑپے کي داستان پر پوري طرح يقين رکھتے تھے لہذا انہوں نے کہا : " پھر وہي پراني وہم و خيال کي گمراہ آميز باتيں نہ کيجئے -" ظاہر ہے يعقوب (ع) جس خوشبو کو محسوس کررہے تھے اس کا چشمہ نبوت کا وہ آسماني رابطہ تھا جو ممکن ہے علم غيب کا نتيجہ ہو اور يہ بھي ممکن ہے ان پر الہام ہوا ہو ويسے ہي جيسے آج بھي ، خاص طور پر مائيں اپنے بچوں کے سلسلے ميں کبھي کبھي کوئي بات کہتي ہيں ار وہ تھوڑي دير بعد سب کے سامنے آجاتي ہے پرديس ميں بيٹا ہے ماں نے کہا : آج مجھے بيٹا ياد آرہا ہے اور بيٹا گھر پہنچ گيا يا ماں مضطرب ہے اور معلوم ہوا بيٹے کے ساتھ کوئي حادثہ پيش آگيا ہے مگر اس صورت ميں ممکن ہے يہ سوال پيش آئے کہ اس سے پہلے يعقوب (ع) نے يوسف (ع) کي خوشبو کيوں نہيں محسوس کي؟! لہذا زيادہ امکان يہي ہے کہ يہ تمام باتيں اسي الہي علم کے تحت تھيں کہ جس کے لئے يعقوب (ع) نے اپنے بيٹوں سے کہا تھا کہ " ميں اللہ کي طرف سے وہ سب جانتا ہوں جو تم لوگ نہيں جانتے -" البتہ يہ الہي علم کامل طور پر الہي ارادہ اور مشيت کے تابع ہے جس چيز کے لئے الہي مشيت ہوتي ہے حاملين علم الہي کو اس بات کا علم ہوجاتا ہے اور جہاں مشيت متقاضي نہ ہو ، علم نہيں ہوتا -اور اب زير بحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا ايک خلاصہ : اگر کوئي شخص اپني خطائيں دل سے قبول کرلے تو دنيا والے اس کو معاف کريں يا نہ کريں خدا کي بارگاہ ميں بخشش کي گنجائش فراہم ہوجاتي ہے البتہ يوسف (ع) کا عمل کہتا ہے کہ جس نے آپ کے ساتھ ظلم و زيادتي کي ہے اس کو شرمندہ ديکھيں تو معاف کرديں کيونکہ خدا عفو و بخشش پسند کرتا ہے - عزت و اقتدار ميں ، ملامت اور انتقام کے بجائے عفو و درگزر انبيا (ع) و اوليا (ع) کا طريقہ ہے - انبيا( ع ) و اولياء (ع) سے منسوب اشياء کا احترام اور ان سے برکت حاصل کرنا جائز ہے اور بہت ممکن ہے وہ درد و بيماري سے شفايابي کا ذريعہ اور معنوي نجات کا وسيلہ ہو - ماحول کي تبديلي ، ان لوگوں کے لئے جنکي تلخ ياديں کسي جگہ سے وابستہ ہوں ، غم بھلانے ميں مؤثر ہے حضرت يوسف (ع) نے اپنے عزيز و اقارب کو کنعاں سے مصر بلاکر وہ ماحول فراہم کيا تھا کہ وہ پچھلي يادوں کو بھلا سکيں - انسان اپنے حواس خمسہ کے علاوہ ان وسيلوں سے بھي مسائل کو سمجھنے کي قوت رکھتا ہے جو دوسروں کے بس ميں نہيں ہے البتہ اس قوت کے لئے خدا کي مشيت و اجازت لازم ہے جو ہر ايک کو حاصل نہيں ہے - چنانچہ جن باتوں کا ہم کو علم نہيں ہے يا ہم جو باتيں سمجھنے کي قوت نہيں رکھتے دوسروں کے لئے بھي اس کا انکار نہيں کرنا چاہئے ممکن ہے دوسروں کے ساتھ خدا کا لطف شامل ہو اور وہ اسے جانتے اور سمجھ سکتے ہوں ، جيسے انبياء عليہم السلام يا خاصان الہي پر وحي اور الہام ہونا ايک ناقابل انکار حقيقت ہے -
بشکريہ آئي آر آئي بي
متعلقہ تحريريں:
زير بحث آيات 76 تا 79 سے جو سبق ملتے ہيں ان کا خلاصہ
سورۂ يوسف ( ع) کي آيت نمبر 78-79 کي تفسير
سورۂ يوسف ( ع) کي آيت نمبر 77 کي تفسير
سورۂ يوسف ( ع) کي آيت نمبر 76 کي تفسير
سورۂ يوسف کي آيت نمبر 70 کي تفسير