• صارفین کی تعداد :
  • 4032
  • 7/18/2011
  • تاريخ :

عالم کائنات میں وھابیوں کا نفی واسطہ کا عقیدہ

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلامی عظیم الشان فلسفی اور مفکر حضرات نے اپنے صحائف اور تالیفات میں ، عالم ھستی میں ضرورتِ وجود ”رابطہ“ و ”واسطہ“ پر بحث کی ھے اور طالبان حکمت و عرفان کے لئے خصوصاً مفید، راہ گشا اوربہت عمدہ مطالب ذکر کئے ھیں۔

فلسفی حضرات نے اپنی جگہ پریہ بات ثابت کی ھے کہ دو چیز جن کے درمیان بلندی و پستی میںنھایت بُعدا ور مباینت ، پا ئی جاتی ھو،ان کے لئے ایک دوسرے سے ارتباط کے لئے واسطہ درکار ھے تاکہ عالی سے سافل تک پیغام رسانی میں واسطہ بن سکے ، اگر ایسا نہ ھو تو کسی بھی حالت میں دو موجود کے درمیان کہ جو مبائن و مغایر ھیں اور ایک دوسرے سے نھایت بُعد رکھتے ھیں کبھی بھی ان میں رابطہ برقرار نھیں ھوسکتا۔

اسی طرح سے صدر متاَلھین اور دیگر فلاسفہ و محققین اور دوراندیش اسلامی حکماء نے حکمت کی عمیق اور فلسفی بحثوں میں اس بات کو منزل ثبوت تک پھونچا دیا ھے کہ خداوند متعال نھایت ”تجرد“ بلکہ” مافوق تجرد“ ھے اور کسی طرح کا نقص اور محدودیت نھیں رکھتا بلکہ اس کی ھستی نا محدودا ور لامتناھی ھے ”کل الکمال“ اور ”کلہ الکمال“ ھے ، اور اگر قاعدہٴ ”بسیط الحقیقة“ کے لحاظ سے دیکھا جائے ، جس کا یھاں ذکر کرنا یا عام لوگوں کا اس کو سمجھنا مشکل ھے بس اس قاعدے کے ذیل میں اتنا سمجھ لیں کہ خداوند عالم سارے کمالات کو خالص اور نامحدودطور پر رکھتا ھے، اور ائمہ معصومین (ع) کے بقول کہ وہ ایک شئی ھے ”لَا کَالاَشیَاءِ“ لیکن اشیا ء کی طرح نھیں، بلکہ وہ ایسی شئی ھے کہ ”بِحَقِیقَةِ الشَّیئِیَّةِ“ یعنی وہ وھی ”حقیقة الوجود“ اور ”حقیقة الحقائق“ ھے کہ عرفان کی زبان میں ”نور الانوار“ و ”ظاھر مطلق“ اور ”غیب ھویت“ و ” ذات احدیت “ و ”عنقاء مغرب“ کھا جاتا ھے۔

دوسری طرف جبکہ ھمیں یہ معلوم ھے کہ اس کائنات کی تمام موجودات ،مادی ھیں جوتمام کی تمام بے انتھا، وسیع و نامحدودفیض( حق تعالی) کی طرف سے فیضیاب ھوتے رہتے ھےں، مادی و جسمانی چیزیں زمان ومکان میں مقید ھوتی ھیں نیز ”بُعد“ میں اسیر رہتی ھیں اور ان کا وجود محدود ھوتا ھے اور ھمیشہ بدلتی رہتی ھیں اور اپنی شکل تبدیل کرتی رہتی ھیں اور ان کی ”حیثیت وقتی“ او رانکی شکل ”متحرک“ھوتی ھیں۔

اوریہ بھی روشن اور واضح ھے کہ خداوند عالم صرف تمام مخلوقات کا خالق ھی نھیں ھے :”اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَيءٍ“ بلکہ ان کا ھادی اور مربی بھی ھے۔

”رَبُّنَا الَّذِی اَعطَیٰ کُلشَيءٍ خَلقَہُ ثُمَّ ھَدَیٰ“ وہ ”رَبُّ الْعَالِمِیْن“ ھے اور تمام موجودات کی پرورش کرنے والا ھے۔

سبھی اس کے کرم و نعمت کے دسترخوان پر بیٹھے ھوئے ھیں کوئی شخص اپنے پاس سے کچھ نھیں رکھتا ھے جو کچھ ھے سب اسی کا دیا ھواھے سب اسی کے محتاج ھیں اور وہ خود ھر ایک سے بے نیاز ھے:

”یَا اَیُّھَا النَّاسُ اَنتُمُ الفُقَرَاءُ اِلَی اللّٰہِ وَ اللّٰہُ ہُوَ الغَنِیُ الحَمِیدُ“

لہٰذا اب ھم کہتے ھیں:کہ اگر واسطہ درکار نہ ھو، تو غنی محض بلکہ ”غنای محض“کا ”فقر محض“اور وہ بھی نامحدود سے کیا تقابل ، ان میں کیا سنخیت ھے، اور کس طرح ”غناء محض“ ”فقر محض“کا ھم نشین و ھم پلہ ھوسکتا ھے سنخیت علتِ انضمام ھے ”اَلسِّنخِیَّةُ عِلَّةُ الاِنضِمَامِ“ لیکن کس طرح ھمنشینی اور دو موجود کے درمیان ارتباط جو کاملاً متفاوت و متباین ھیں توجیہ پذیر ھوسکتا ھے مگر یہ کھا جائے کہ یہ موجودات خاکی مادی و محدود کہ جو ”غواسق“ یعنی اندھیرے و تاریکی میں ھیں ، عقول کلیہ ”وسائط فیض“ و ”وسائل“ کے توسط سے قریب او رقربت رکھتے ھیں، اور حکماء کی اصطلاح میں ”جالس بین الحدین“ یعنی دو حدوں کے درمیان قرار پانے والے ، کھلاتے ھیں حضرت ”نور الانوار“ سے ،ھر حالت میں، فیوضات کسب کرتے رہتے ھیں ،اور ھر ایک اپنی لیاقت و ظرفیت کے مطابق منزل کمال تک پھونچتے ھیں کہ وہ وھی انبیاء و اولیاء معصومین (ع) ھیں جو اپنے جنبہٴ روحانیت کے ذریعے خدا وند کریم سے فیوضات کسب کرتے ھیں اور اس طرف مخلوقات سے پیکر انسانی میں مناسبت رکھتے ھیں اور فیضیاب کرتے ھیں۔

وجود نبی و پیامبر کی ضرورت کے سلسلے میں اسلامی فلسفی حضرات کے جومدلل و واضح ترین بیانات ھیں ،وھی دلیلیں بعینہ وجود امام و خلیفہٴ پیامبر (ص) پر جاری ھوں گی ۔

اگر چہ یہ بحث مفصل مقدمات اور فلسفہ کے دشوار و مشکل مراحل میں سے ھے اور ھم یھاں پر فلسفے کی دشوار و سنگین وادیوں میں جانا مناسب نھیں سمجھتے لیکن اس نکتہ کی وضاحت کرنا ضروری ھے کہ نہ تو محمدا بن عبد الوھاب اور نہ ھی اس کے ھمفکر رھنماؤں ، مثال کے طور پر ابن تیمیہ و ابن

قیم،جیسے افراد فلسفے اور حکمت کے مطالب سے ناآشنائی کی بنا پر اور مسٹر ھمفرے کے توسط سے برطانیہ کی تحریک آمیز جاسوسی و وزارت استعمار برطانیہ کی طرف سے محمد ابن عبد الوھاب کو دین سازی کے دیئے گئے احکامات ، ان سب کے علاوہ علوم عقلیہ سے دوری و اسلامی فلسفے و حکمت سے عدم واقفیت اور ظاھر پرستی و جمود و عدم تفکر کا نتیجہ ھے، یہ بات اصلاحگروں اور نئی فکررکھنے والے اندیشمندوں کی اصطلاح میںجو حفظ شرع و دین کا دفاع اور دلسوزی و جانبازی !کا نعرہ لگاتے ھیں، یہ لوگ اللہ کی قدرت وعظمت و علم و احاطہ و حیات و تمام اسماء و صفات کو مخلوقات سے جدا و الگ مانتے ھیں اس طرح کہ عنوان ”وساطت“ کو وسائط سے اور عنوان ”مرآتیت“ (آئینہ)کے قائل ھیں جن میں خدا وندعالم کی ذات کے مظھر ھیں اس وجہ سے اصولاً عالم امکان میں معنی ظھور وتجلی کے قائل نھیں ھےں۔

اسی وجہ سے یہ لوگ ایک خطرے اور اشکال میں قرار پاتے ھیں کہ اگر روز قیامت تک یہ لوگ فکر کریں تب بھی اس سے نجات اور چھٹکارہ نھیں مل سکتا، اور یہ اعتراض کہ: ھم اس کائنات میں بہت ساری ایسی مخلوقات کو وجداناً اور شھوداً دیکھتے ھیں کہ سب کی سب زندگی و علم و قدرت رکھتی ھیں ، اوریہ ایک ایسا مسئلہ ھے کہ جو قابل انکار بھی نھیں ھے اور موجودات موٴ ثر کا ھم انکاربھی نھیں کرسکتے۔

لہٰذا ھم کہتے ھیں: کہ اگر ذات ازلی حق، میں حیات و علم و قدرت کو دیگر موجودات کے علاوہ جانیں تو یہ بات وجداناً و شھوداً غلط اور باطل ھے چونکہ موجودات میں ان صفات کا وجود ضروریات و یقینیات میں سے ھے اور اگر موجودات کو قدرت مستقل و حیات و علم مستقل والا مانیں، اگرچہ اللہ تعالی کی طرف ھو، پھر بھی یہ غلط ھے کیونکہ یہ کلام عین شرک و ثنویت ھے اور اس پر تعدد خدا و دیگر بے شماراشکالات پیدا ھوتے ھیں۔

عنوان ”اعطاء“ عنوان ”استقلال“ کے ساتھ سازگاری نھیں رکھتا ، چونکہ اس گفتگو کا لازمہ یہ ھوگا کہ، موجودات کی خلقت حق تعالی کے سبب ھے، اور یہ کلام اگر دیکھا جائے تو عین تفویض ھے جیسا کہ ھم جانتے ھیں کہ خداوند عالم”لَم یَلِد وَ لَم یُولَد وَ لَم یَکُن لَّہُ کُفُواً اَحَدٌ“ ھے نہ اس نے کسی کو جنم دیا اور نہ اسکو کسی نے پیداکیا اور نہ ھی اس کا کوئی کفو ھے۔

اب یھاں پر کوئی علمی و فلسفی راستہ نھیں ھے مگر یہ کہ اس کائنات کی موجودات کو ذات اقدس باری تعالی کے لئے مظاھر و متجلی تسلیم کریں اس طرح کہ قدرت و علم و حیات خداوندعالم سے مخصوص ھے اور یہ موجودات عالم میں ان کی ماھیت و ھویت کے اعتبار سے قدرت و علم و حیات نے اظھار کیا ھے۔

یعنی استقلال خداوندعالم میں منحصر ھے حیات و علم و قدرت وسارے اسما ء و صفات میں استقلال، ذات حق تعالی سے مختص ھے اور خدا کے علاوہ دیگر چیزوں میں عرضی طور پر ھے یہ تمام چیزیں ذات حق تعالی میں اصالت رکھتی ھیں اور دیگر موجودات میں آئینہ و نشانی کے طور پر پائی جاتی ھیں۔

اور اب اسی قاعدہ کی بنا پر ارواح مجرداور مقرب فرشتوں کے نفوس قدسیہ و انبیاء (ع) کے نفوس ناطقہ اور اسی طرح ائمہ اطھار علیھم السلام کے نفوس ناطقہ، حضرت مھدی قائم آل محمد(ع) عج اللہ تعالی فرجہ الشریف میں مزید پایا جاتا ھے بلکہ عادتاً ان میں زیادہ ھی ظھور و بروز پایا جاتا ھے اور یہ آئینے ذات حق تعالی کی کچھ زیادہ ھی عکاسی کرتے ھیں۔

لہٰذا اس اصل و قاعدہ کی بنا پر حیات و علم و قدرت خداوندعالم سے مخصوص ھےں، ان کا ظھور و بروز ان آئینوں میں گواہ اور ایک ناقابل انکار حقیقت اور عقلی طور پر یہ بات ثابت ھے۔

ظھور و ظاھر، اورحضور و حاضر ایک ھی چیز ھے معنی حرفی معنی اسمی میں سما یا ھوا ھے، تمام موجودات بغیر کسی استثناء کے، سب کے سب اللہ کی نشانیاں ھیں اور ان کی نسبت اللہ تعالی کی طرف معانی حرفیہ کی نسبت ھے اور معنی حرفی کے لئے استقلال کا تصور نا معقول ھے اور قیاس برھانی میں خلف کا سبب ھے۔

معنی حرفی و معنی اسمی الگ الگ دو چیزیں نھیں ھیں ”معنی حرفی“، ”معنی اسمی“ کی کیفیت و خصوصیت پر دلالت کرتاھے، پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین (ع) سے حاجت طلب کرنا عین خداوند منان سے حاجت طلب کرنا ھے اور عین توحید ھے۔

فلسفہٴ متعالیہ و حکمت اسلام میں، کثرت میں وحدت کا وجود، اور وحدت ذات حق میں کثرت کا وجود ثابت شدہ چیزھے، جس طرح خداوند تبارک و تعالیٰ کانام ”احدیت“ ھے جو تمام اسماء و تعینات اور ھر اسم و رسم سے منزہ و پاک ھے اور وہ احدیت ھے جسکی ذات بسیط و صرف ھے، جو کہ ھر طرح کے تعلقات اور مفھوم کے انطباق سے عاری ھونے پر دلالت کرتی ھے، اسی طرح خداوند تبارک و تعالی کا نام ” واحدیت“ بھی ھے کہ اس کے ظھور و طلوع ھونے کے لحاظ سے، عالم میں اسما اور صفات کلیہ و جزئیہ، اور ساری کائنات ملک سے لیکر ملکوت تک کی خلقت کا ملاحظہ کیا گیا ھے۔


متعلقہ تحریریں :

جھان کی پیدائش ایک نظام کے تحت ھے

شرک اور اس کی اقسام

حقیقت عصمت (حصّہ ششم)

حقیقت عصمت (حصّہ پنجم)

حقیقت عصمت (حصّہ چهارم)