خليفي فوجي عدالت سے بحريني شاعرہ "آيات القُرمُزي" کو ايک سال قيد کي سزا
بحرين کي نوجوان انقلابي شاعرہ کو آج وکيل کا حق ديئے بغير مطلق العنان آل خليفہ خاندان کي خانداني فوجي عدالت ميں انقلاب کے لئے شاعري کرنے اور آل خليفہ کے بادشاہ اور وزيراعظم پر شاعرانہ زبان ميں تنقيد کرنے کي پاداش ميں ايک سال قيد کي سزا سنائي گئي ہے۔
اہل البيت (ع) نيوز ايجنسي ـ ابنا ـ کي رپورٹ کے مطابق بحرين ميں آل خليفہ کے مطلق العنان حکمران خاندان کي خانداني فوجي عدالت نے انقلاب بحرين کي بولتي زبان نوجوان انقلابي شاعرہ "آيات حسن محمد القرمزي پر الزام لگايا ہے کہ "انھوں نے عوامي مظاہروں ميں ارتکاب جرم کي نيت سے شرکت کي تھي" اور يہ کہ "انھوں نے عوام کو آل خليفہ خاندان کے خلاف اٹھنے کي دعوت دي ہے" چنانچہ اس 20 سالہ نوجوان شاعرہ کو ايک سال قيد کي سزا سنائي گئي ہے تا کہ اس طرح بولتي زبانون پر تالے پڑ جائيں اور جابر حکمران کے سامنے حق کي صدا اٹھانے والے عبرت ليں اور خاموش ہوجائيں۔
خليفي عدالت نے مذکورہ الزامات کي کوئي وضاحت نہيں کي اور يہ بھي نہيں کہا کہ ايک قلم اور ايک کاغذ لے کر ايک نوجوان خاتون کس طرح کا جرم سرانجام دے سکتي ہے؟ کيا وہ واقعي خليفي افواج پر خودکش دھماکے کي نيت سے آئي تھيں؟ يا يہ کہ جہاں حکمرانوں کو تنقيد سننے کي عادت ہي نہيں ہے وہاں حق کي صدا بلند کرنا بھي خودکش دھماکوں کے زمرے ميں آتا ہے اور خودکش دھماکوں سے بھي بدتر ہے؟۔
آيات القرمزي نے ميدان اللؤلؤہ ميں عظيم اور تاريخي انقلابي دھرنے ميں منظوم انداز سے خليفي حکمرانوں کي مطلق العنانيت پر تنقيد کرتے ہوئے ملک ميں اصلاحات کا مطالبہ کيا تھا اور جب آل سعود کے جلاد بحرين ميں داخل ہوئے تو ہزاروں دوسرے افراد کي طرح آيات القرمزي کو بھي اغوا کيا گيا اور آج ان کو بولنے کي سزا دي گئي جبکہ بولنے اور سنانے کي آزادي کے عالمي ٹھيکيدار امريکي حکمران اسي وقت آل خليفہ کے سفاک وليعہد کے ميزبان ہيں اور وھائٹ ہاؤس والوں نے انہيں ہاتھوں ہاتھ لے کر ان کي زبردست آؤبھگت کرتے ہوئے خليفي خاندان کو امريکہ کا تزويري ساتھي قرار ديا ہے جو بحرين کے ساحلوں پر امريکي بحري بيڑے کي حفاظت کررہا ہے۔
ادھر ايمنسٹي کي مشرق وسطي اور شمالي افريقن ڈيسک کے سربراہ مالکم اسمارٹ نے آيات القرمزي پر بغير وکيل کے فوجي عدالت ميں مقدمہ چلائے جانے پر اپنا شديد رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بحريني شاعرہ کو اپني سوچ شاعري کي زبان ميں بيان کرنے اور پرامن انداز ميں اپني فکر کي ترجماني کرنے کي سزا دي گئي ہے۔
خليفي فوجي عدالت نے اس سے قبل 17 مئي کو بحريني خاتون "فضيلہ مبارک احمد" کو "ايک سرکاري ملازم پر حملہ کرنے" اور "عوام کو اعلانيہ طور پر خليفي خاندان کے خلاف اکسانے" نيز "عوامي مظاہرون ميں جرم کے ارتکاب کي نيت سے شرکت کرنے" کے الزامات لگا کر چار سال قيد کي سزا سنائي تھي۔