• صارفین کی تعداد :
  • 2232
  • 6/11/2011
  • تاريخ :

صلح حديبيہ کا پيمان

صلح حديبيہ کا پيمان

ذی قعدہ سنہ ۷ ہجری

راہ مکہ میں

لشکر السلام کی پے درپے کامیابی اور مشرکین مکہ کی گوشہ گیری نے پیغمبر کو اس بات پر آمادہ کیا کہ دوسری بار جزیرة العرب میں مسلمانوں کی حیثیت و وقار کے استحکام کے لیے اقدام کریں۔ آپ نے حکم دیا کہ مسلمان سفر حج کے لیے تیار ہو جائیں اور ہمسایہ قبائل جو ابھی تک حالت شرک پر باقی تھے ان سے آپ نے مسلمانوں کے ساتھ اس سفر میں چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے عذر پیش کیا اور ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔

اس سفر میں عبادی اور معنوی خصوصیتوں کے علاوہ مسلمانوں کے لیے وسیع اجتماعی اور سیاسی مصلحتیں بھی تھیں۔ اس لیے کہ عرب کے متعصب قبائل نے مشرکین کے غلط پروپیگنڈہ کی بنا پر یہ سمجھ رکھا تھا کہ اس خانہ کعبہ کے لیے جو سلف کی یادگار اور ان کے افتخار کا مظہر ہے، رسول خدا کسی طرح اس کی قدر و منزلت کے قائل نہیں ہیں اور اس وجہ سے اسلام کی اشاعت سے شدت کے ساتھ ہراساں تھے۔ اب غلط خیالات کے پردے چاک ہوئے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ رسول خدا حج کو ایک فریضہ واجب جانتے ہیں ایک طرف اگر قریش مانع نہیں ہوئے اور زیارت کعبہ کی توفیق ہوگئی تو یہ مسلمانوں کے لیے بڑی کامیابی ہوگی کہ وہ چند سال کے بعد ہزاروں مشرکین کی آنکھوں کے سامنے اپنی عبادت کے مراسم ادا کریں گے۔ دوسری طرف قریش مسلمانوں کے مکہ میں داخل ہونے سے اگر مانع ہوئے تو اعراب کے جذبات طبعی طور پر مجروح ہو جائیں گے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کو فریضہ حج انجام دینے کے لیے کیوں نہ آزاد چھوڑا۔ یہ سفر چونکہ جنگی سفر نہ تھا اس لیے رسول خدا نے حکم دیا کہ ایک مسافر صرف ایک تلوار اپنے ساتھ رکھے اور بس۔

رسول خدا نے قربانی کے لیے ستر اونٹ مہیا کئے۔ پھر رسول خدا چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مقام ذوالحلیفہ میں احرام باندھا۔

آپ نے عباد بن بشر کو ۲۰ مسلمانوں کے ساتھ ہراول دستہ کے عنوان سے آگے بھیج دیا تاکہ جو راستے میں تھے ان لوگوں کے کانوں تک لشکر اسلام کی روانگی کی خبر پہنچا دیں اور اگر ان لوگوں نے کوئی سازش کی تو اس کی خبر رسول خدا کو دیں۔ (طبقات ابن سعد ج۲ ص ۹۵)

قریش کا موقف

جب قریش رسول خدا کی روانگی سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے بتوں (لات و عزیٰ) کی قسم کھائی کہ ان کو مکہ میں آنے سے روکیں گے۔ قریش کے سرداروں نے رسول خدا کو روکنے کے لیے خالد بن ولید کو دو سو سواروں کے ساتھ مقام ”کراع الغیم“ بھیجا انہوں نے وہاں مورچے سنبھال لیے۔ رسول خدا قریش کے موقف سے آگاہی کے بعد چونکہ یہ چاہتے تھے کہ خونریزی کے ذریعہ اس مہینہ اور حرم کی حرمت مجروح نہ ہو اس لیے آپ نے راہنما سے فرمایا کہ کارواں کو اس راستہ سے لے چلو کہ جس راستہ میں خالد کا لشکر نہ ملے۔

راہنما قافلہٴ اسلام کو نہایت دشوار گذار راستوں سے لے گیا یہاں تک کہ یہ لوگ مکہ سے ۲۲ کلومیٹر دور حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے۔ آنحضرت نے سب کو یہ حکم دیا کہ یہیں اتر پڑیں اور اپنے خیمے لگالیں۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۲۳)

قریش کے نمائندے پیغمبر کی خدمت میں قریش نے چاہا کہ آنحضرت کے آخری مقصد سے باخبر ہو جائیں اس لیے انہوں نے اپنے یہاں کی اہم شخصیتوں کو رسول کی خدمت میں بھیجا۔

قریش کی نمائندگی میں پہلے گروپ میں ”بدیل بن خزاعی“ قبیلہ خزاعہ کے افراد کے ساتھ آیا۔ جب وہ رسول خدا سے ملا تو آپ نے فرمایا میں جنگ کے لیے نہیں آیا ہوں میں تو خانہ خدا کی زیارت کے لیے آیا ہوں۔ نمائندے واپس چلے گئے اور انہوں نے یہ اطلاع قریش کو پہنچا دی لیکن قریش نے کہا خدا کی قسم، ہم ان کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ خواہ زیارت خانہ خدا ہی کی غرض سے کیوں نہ آئے ہوں۔ دوسرے اور تیسرے نمائندے بھیجے گئے اور انہوں نے بھی بدیل ہی والی رپورٹ پیش کی۔

قریش کے تیسرے نمائندہ حلیس بن علقمہ عرب کے تیر اندازوں کے افسر نے کہا کہ ہم نے ہرگز تم سے یہ معاہدہ نہیں کیا کہ ہم خانہ خدا کے زائرین کو روکیں گے، خدا کی قسم! اگر تم لوگ محمد کو آنے نہ دو گے تو میں اپنے تیر انداز ساتھیوں کے ساتھ تمہارے اوپر حملہ کرکے تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ قریش اپنے اندر اختلاف رونما ہونے سے ڈر گئے اور انہوں نے حلیس کو اطمینان دلایا کہ ہم کوئی ایسا راستہ منتخب کریں گے جو تمہاری خوشنودی کا باعث ہوگا۔

قریش کا چوتھا نمائندہ عروة بن مسعود تھا، جس پر قریش اظمینان کامل رکھتے تھے۔ وہ جب رسول خدا سے ملا تو اس نے اس بات کی کوشش کی کہ اپنی باتوں میں قریش کی طاقت کو زیادہ اور اسلام کی قوت کو کم کرکے پیش کرے اور مسلمانوں کو جھک جانے اور بلاقید و شرط واپس جانے پر آمادہ کرلے۔ لیکن جب وہ واپس گیا تو اس نے قریش سے کہا کہ میں نے قیصر و کسریٰ اور سلطان حبشہ جیسے بڑے بڑے بادشاہوں کو دیکھا ہے مگر جو بات محمد میں ہے وہ کسی میں نہیں ہے۔

میں نے دیکھا کہ مسلمان ان کے وضو کا ایک قطرہ پانی بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے وہ لوگ تبرک کے لیے اس کو بھی جمع کرتے ہیں اور اگر ان کا ایک بال بھی گر جائے تو ان کے اصحاب اس کو فوراً تربک کے لیے اٹھا لیتے ہیں۔ لہٰذا اس خطرناک موقع پر نہایت عاقلانہ ارادہ کرنا۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۳۲۵)

رسول خدا کے سفراء

رسول خدا نے ایک تجربہ کار شخص کو جس کا نام ”خراش“ تھا اپنے اونٹ پر سوار کیا اور قریش کے پاس بھیجا۔ لیکن ان لوگوں نے اونٹ کو پئے کر دیا اور نمائندہ پیغمبر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ مگر وہ حادثہ تیر اندازان عرب کے ایک دستہ کی وساطت سے ٹل گیا۔

قریش کی نقل و حرکت یہ بتا رہی تھی کہ ان کے سر میں جنگ کا سودا سمایا ہوا ہے۔ رسول خدا مسئلہ کو صلح کے ذریعہ حل کرنے سے مایوس نہیں ہوئے۔ لہٰذا آپ نے قریش کے پاس ایسے شخص کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا جس کا ہاتھ کسی بھی جنگ میں قریش کے خون سے آلودہ نہ ہوا ہو۔ لہٰذا آپ نے عمر بن خطاب کو حکم دیا کہ وہ قریش کے پاس جائیں۔ انہوں نے عذر ظاہر کیا رسول خدا نے عثمان بن عفان کو جن کی اشراف قریش سے قریب کی رشتہ داری تھی۔ اشراف قریش کے پاس بھیجا۔ عثمان قریش کے ایک آدمی کی پناہ میں مکہ میں وارد ہوئے اور پیغمبر کے پیغام کو قریش کے سربرآوردہ افراد تک پہنچایا۔ انہوں نے پیش کش رد کرنے کے ساتھ عثمان کو بھی اپنے پاس روک لیا انہیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی۔ مسلمانوں کے درمیان یہ افواہ اڑ گئی کہ قریش نے عثمان کو قتل کر دیا۔(ایضاً ص ۳۲۸،۳۲۹)

بیعت رضوان

پیغمبر کے نمائندہ کی آنے میں تاخیر کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان عجیب اضطراب اور ہیجان پیدا ہوگیا۔ اس بار مسلمان جوش و خروش میں آکر انتقام پر آمادہ ہوگئے۔ پیغمبر نے ان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے فرمایا۔ ہم یہاں سے نہیں جائیں گے تاوقتیکہ کام کو ایک ٹھکانے نہ لگا دیں۔ اس خطرناک وقت میں اگرچہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے ضروری ہتھیار اور ساز و سامان نہ تھا۔ پھر بھی رسول خدا نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے اصحاب کے ساتھ عہد و پیمان کی تجدید کریں۔ آنحضرت ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے اور تمام اصحاب نے سوائے ایک کے آپ کے ہاتھ پر بعنوان بیعت ہاتھ رکھا اور قسم کھائی کہ خون کے آخری قطرہ تک اسلام کا دفاع کریں گے۔

یہ وہی بیعت رضوان ہے جس کے بارے میں قرآن میں اس طرح آیا ہے کہ:

”خداوند عالم ان مومنین سے، جنہوں نے تمہارے ساتھ درخت کے نیچے بیعت کی ہے، خوش ہوگیا اور ان کے وقار و خلوص سے آگاہ ہوگیا اللہ نے ان کے اوپر ان کی روح کے سکون کی چیز نازل کی اور اجر کے عنوان سے عنقریب ان کو فتح عطا کرے گا۔“ (سورہٴ فتح:۱۸)

بیعت کی رسم ختم ہوئی ہی تھی کہ عثمان پلٹ آئے اور قریش کے وہ جاسوس جو دور سے بیعت کا واقعہ دیکھ رہے تھے ہاتھ پیر مار کر رہ گئے۔ قریش کے سربرآوردہ افراد نے ”سہیل بن عمرو“ کو صلح کی قرارداد معین کرنے کے لیے بھیجا۔

(سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۳۳۰)

صلح نامہ کا مضمون

جب سہیل بن عمرو رسول خدا کی خدمت میں پہنچا تو یوں گویا ہوا۔ قریش کے سربرآوردہ افراد کا خیال ہے کہ آپ اس سال یہاں سے مدینہ واپس چلے جائیں اور حج و عمرہ کو آئندہ سال پر اٹھا رکھیں۔

پھر مذاکرات کا باب کھل گیا اور سہیل بن عمرو بنت بات پر بے موقع سخت گیری سے کام لے کر پریشانی کھڑی کرتا رہا۔ جب کہ پیغمبر چشم پوشی کے رویہ کو اس لیے نہیں چھوڑ رہے تھے کہ کہیں صلح کا راستہ ہی بند نہ ہو جائے۔ مکمل موافقت کے ایک سلسلہ کے بعد رسول خدا نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ صلح نامہ لکھو علی علیہ السلام نے رسول کے حکم سے صلح نامہ لکھا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سہیل نے کہا کہ ہم اس جملہ سے آشنا نہیں ہیں آپ بسمک اللھم لکھیں۔ (یعنی تیرے نام سے اے خدا) رسول خدا نے مواقفت کی پھر علی نے پیغمبر کے حکم سے لکھا کہ یہ وہ صلح ہے جسے رسول خدا محمد انجام دے رہے ہیں۔

سہیل بولا: ہم آپ کی رسالت اور نبوت کو قبول نہیں کرتے اگر اس کو قبول کرتے تو آپ سے ہماری لڑائی نہ ہوتی۔ آپ اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھیں۔

(بحارالانوار ج۲ ص ۳۳۳،۳۳۳۵)

رسول خدا نے علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس جملہ کو مٹا دیں لیکن علی نے فرمایا کہ میرے ہاتھوں میں آپ کا نام مٹانے کی طاقت نہیں ہے۔ رسول خدا نے اپنے ہاتھوں سے اس جملہ کو مٹا دیا۔

قریش اور مسلمان دونوں اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے۔ تاکہ اجتماعی امن و امان اور عربستان میں عمومی صلح قائم ہو جائے۔

جب کوئی قریش کا آدمی مسلمانوں کی پناہ میں چلاجائے گا تو محمد اس کو واپس کر دیں گے لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی قریش کی پناہ میں آجائے تو قریش پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس کو واپس کریں۔

مسلمان اور قریش دونوں، جس قبیلہ کے ساتھ چاہیں عہد و پیمان کرسکتے ہیں۔

محمد اور ان کے اصحاب اس سال مدینہ واپس جائیں لیکن آئندہ سال زیارت خانہ، خدا کے لیے آسکتے ہیں۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہ کریں اور مسافر جتنا ہتھیار لے کر چلتا ہے اس سے زیادہ ہتھیار اپنے ساتھ نہ رکھیں۔

(سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۳۲)

وہ مسلمان جو مکہ میں مقیم ہیں اس پیمان کی رو سے اپنے مذہبی امور کو آزادی سے انجام دے سکتے ہیں اور قریش کو انہیں آزار پہنچائیں گے اور نہ ہی اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ اپنے مذہب سے پلٹ جائیں ان کے دین کا مذاق نہیں اڑائیں گے۔ اس طرح وہ مسلمان جو مدینہ سے مکہ وارد ہوں ان کی جان و مال محترم ہے۔ (بحارالانوار ج۲۰ ص ۳۵۰)

اس قرارداد کی دو کاپیاں کی گئیں ایک کاپی رسول خدا کی خدمت میں پیش ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور خود آپ نے وہیں سرمونڈا۔ پھر ۱۹ دن کے بعد آپ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

 

عنوان : تاريخ اسلام

پيشکش : شعبہ تحرير و پيشکش تبيان

بشکريہ پايگاہ اطلاع رساني دفتر آيت اللہ العظمي مکارم شيرازي


متعلقہ تحريريں :

مدينہ لشکر کفار کے محاصرے ميں

لشکر کي روانگي سے رسول خدا کي آگاہي

غزوہ خندق (احزاب)

غزوہ  ذات الرقاع  و غزوہ? دومة الجندل

غزوہ بدر موعد