• صارفین کی تعداد :
  • 566
  • 6/7/2011
  • تاريخ :

9 سالہ بچي آل سعود اور آل خليفہ کے جبر کا شکار ہوکر شہيد

نو سالہ بحريني بچي

ايک نو سالہ بحريني بچي فاطمہ علي خليل آج صبح سويرے جزيرہ سترہ ميں آل سعود کي پشت پناہي ميں خليفي غنڈوں کے جبر کا نشانہ بن کر شہيد ہوگئي ہيں۔

بحرين سے اہل البيت (ع) نيوز ايجنسي ـ ابنا ـ کے ذرائع کي رپورٹ کے مطابق آج صبح آل سعود کے کرائے کے غنڈوں کي پشت پناہي ميں خليفي غنڈوں کي درندگي کا شکار ہوکر شہيد ہوگئي ہيں۔ سترہ ميں ذرائع نے نو سالہ ننھي سي بچي فاطمہ علي خليل کي شہادت کي تصديق کي ہے۔

رپورٹ کے مطابق آج علي الصبح 4 بجے خليفي اور سعودي غنڈوں نے ايک کے گھر پر آنسو گيس کے گولے پھينکے اور آنسو گيس کے بے تحاشا استعمال کے نتيجے ميں شہيدہ فاطمہ علي خليل کا دم گھٹ گيا اور وہ موقع پر شہيد ہوگئيں۔

پھول سي ننھي فاطمہ علي خليل کي شہادت کے ساتھ انقلاب بحرين کے شہيدوں کي تعداد 35 ہوگئي ہے۔

14 فروري يوتھ الائنس فار بحرين ريوالوشن نے خليفي بادشاہ کي طرف سے يکم جون کو ايمرجنسي کے خاتمے کے اعلان کے بعد پرامن مظاہروں کي طرف لوٹنے کا اعلان کيا تھا اور يکم جنوري کا دن گذر گيا مگر بحرين کي سڑکوں پر خليفي اور سعودي فورسز بدستور موجود ہيں تا ہم مظاہروں کا سلسلہ جاري ہے۔ بحرين ميں آل خليفہ اور آل سعود نے گويا عالمي طاقتوں سے تين مہينوں کي مہلت طلب کي تھي اور اس عرصے ميں بحرين ميں عالمي ضمير کي ميت پر ملت بحرين نے خوب سوگواري کي کيونکہ وہاں عالمي ضمير برين ڈيتھ (Brain death) کا شکار ہوگيا اور  آل خليفہ اور آل سعود نے دنيا والوں کي آنکھوں ميں آنکھيں مظالم اور بے شرميوں کي تمام حدود پھلانگ ديں۔ آل خليفہ اور آل سعود نے مہلت لي تھي تاکہ اس عرصے ميں ظلم و جبر کي تمام ترکيبيں آزما ليں حتي کہ ملت بحرين زندگي کا نعرہ لگانا چھوڑ دے اور ماضي کي طرح غلامي کي زندگي قبول کرے ليکن سعودي ـ خليفي مہلت ختم ہوئي اور ملت بحرين نے ثابت کرکے دکھايا کہ زندہ ہے اور صہيوني اور مغربي غلاموں کو مزيد آقا کے طور پر قبول کرنے کے لئے تيار نہيں ہے۔ عوام نے 14 فروري انقلابي اتحاد کي کال کو مثبت جواب ديا ہے اور ہر روز تمام شہروں اور ديہاتوں ميں آل خليفہ اور آل سعود کے جارحين کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاري ہے۔ ايمرجنسي اٹھ جانے اور خليفيوں کي طرف سے منامہ سے فوجوں کي پسپائي کے اعلان کے باوجود دارالحکومت افواج کے محاصرے ميں ہے اور سڑکوں پر خليفي اور سعودي فورسز کے ساتھ ساتھ کرائے کے نقاب پوش بيروني غنڈوں کا گشت جاري ہے۔  ايمرجنسي اٹھ گئي ہے ليکن بحرين مارشل کا نظارہ پيش کر رہا ہے۔  

آل سعود کے آنے کے بعد خليفيوں نے لؤلؤہ اسکوائر کو منہدم کرديا ہے ليکن بحرين کے انقلابي عوام کہہ رہے ہيں کہ وہ اس اسکوائر کو عنقريب تعمير کريں گے اور يہ بحريني عوام کے عزم کي علامت ہے۔  وہ انقلاب کو کاميابيوں کي چوٹياں سر کرنے تک جاري رکھنا چاہتے ہيں اور اللہ تعالي مظلوموں کا حامي اور ناصر ہے۔

سعودي اور خليفي فوجيوں نے در حقيقت امام علي النقي علي عليہ السلام کي شہادت کے سلسلے ميں منعقدہ مجلس پر حملہ کيا تھا? مجلس ايک گھر ميں ہورہي تھي۔  کہ سعودي اور خليفي جلادوں نے گھر پر حملہ کيا اور صوتي بموں اور آنسو گيس کے دسيوں گولے گھر کے اندر پھينکے جس سے کئي افراد کو سانس کي تکليف ہوئي اور کئي افراد زخمي ہوئے جبکہ ننھي فاطمہ علي خليل دم گھٹنے سے شہيد ہوگئيں۔

بحرين ميں ايک شيعہ ملک ہونے کے ناطے مجالس عزاداري معمول کي بات ہے ليکن جب سے اس ملک ميں انقلاب کا آغاز ہوا ہے اور جب سے خليفيوں کو آل سعود کي فوجي مدد حاصل ہوئي ہے اور آل سعود نے بحرين پر فوجي قبضہ کر رکھا ہے عزاداري کي مجالس بھي آل سعود کے زير کنٹرول شرقيہ کے علاقوں کي مانند، منع کي گئي ہيں۔

بحرين کے بہادر اور مظلوم عوام نے کل رات کو امام علي بن محمد النقي الہادي عليہ السلام کي شہادت کے سلسلے ميں حسينيات ميں مجالس منعقد نہ کرسکے ليکن گھروں ميں يہ مجالس منعقد ہوئيں کيونکہ بہت سي کئي حسينيات تو مساجد کے ساتھ ساتھ شہيد کردي گئي ہيں اور باقي حسينيات ميں مجالس کا انعقاد منع کيا گيا ہے۔

کل رات کي مجلس سترہ کے ايک گھر ميں بھي منعقد ہوئي تھي جہاں خليفيوں اور سعوديوں نے اہل بيت (ع) نبي (ص) سے اپني تاريخي دشمني کا ثبوت ديتے ہوئے اس مجلس پر حملہ کيا جس ميں اہل بحرين نے اپنے انقلاب کو پينيسويں شہيد کي قرباني بھي پيش کردي جو آل سعود اور آل خليفہ کے جبر و ستم کي تاريخ ميں ايک نئے اور سياہ باب کا اضافہ بھي شمار کيا جاسکتا ہے اور بحريني عوام اس سياہ باب کو بھي ياد رکھيں گے۔

اسي اثناء ميں الوفاق الاسلامي جماعت کے ايک رکن نے سعودي اور خليفي جلادوں کے ہاتھوں ننھي فاطمہ علي خليل کے قتل کي شديد مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آل سعود اور آل خليفہ کے يہ اقدامات ملکي صورت حال کو مزيد پيچيدہ کر رہے ہيں۔

الہادي نے کہا:

شيعيان آل رسول (ص) کے مظلوم اماموں کي شہادت پر مجالس عزاء کا انعقاد معمول کي بات ہے اور ہم کئي صديوں سے اس سنت پر عمل کررہے ہيں? آل خليفہ کے حکام کا بھي دعوي ہے کہ وہ "ديني اور مذہبي مراسمات پر حملے نہيں کرتے" ليکن ہم نے ديکھا کہ انھوں نے ديني اور مذہبي مراسمات پر حملہ کرکے دکھايا۔

انھوں نے کہا کہ ايمر جنسي کے خاتمے کے دعووں کے باوجود حکومت اور متعصب سعودي جارح افواج کا رويہ بد ترين ہے کہ جو آئے روز مساجد ميں مذہبي اجتماعات کو اپني جارحيت کا نشانہ بناتے ہيں تاہم شہادت امام علي نقي عليہ السلام کي مناسبت سے منعقدہ مجلس عزاء کے اجتماعات پر سعودي ناصبيوں کے حملے شرمناک فعل ہيں جس کي جتني مذمت کي جائے کم ہے۔

انہوں نے مزيد کہا کہ بحرين ميں ڈاکٹروں اور نرسوں کو ايک عدالت ميں صرف اس لئے پيش کيا جا رہاہے کہ انھوں نے سعودي جارحيت سے زخمي ہونے والے بحرينيوں کو ابتدائي طبي امداد دي ہے۔

انھوں نے اس عدالت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عدالت کے فيصلوں کو نہيں مانا جائے گا کيونکہ يہ طرز عمل انساني حقوق کي خلاف ورزي ہے۔

آل خليفي بےشرمي کي انتہا بھي ديکھنے کے قابل ہے:

ايک خليفي اہلکار نے رائٹرز سے بات چيت کرتے ہوئے کہا ہے کہ "سرکاري افواج کي منامہ کے نواح ميں کہيں بھي کسي سے کوئي جھڑپ نہيں ہوئي ہے۔

رائٹرز کے نمائندے نے سرکاري اور سعودي فورسز کي طرف سے مجلس عزا پر حملے اور ننھي فاطمہ علي خليل کي شہادت کا حوالہ ديا تو انھوں نے کہا: "نہيں! ہرگز نہيں! يہ ايک حقيقت ہے کہ جب سے (يکم جون کو) ملک ميں ايمرجنسي کا خاتمہ ہوا ہے کبھي بھي کسي مقام پر بھي کوئي بھي جھڑپ نہيں ہوئي ہے"!۔

سوال يہ ہے کہ يہ خليفي حکام واقعي سادہ لوح ہيں يا پھر دنيا والوں کو سادہ لوح سمجھتے ہيں؟ حقيقت يہ ہے کہ گذشتہ 6 دنوں ميں بحرين کے مختلف علاقوں ميں دسيوں جھڑپيں ہوئي ہيں اور دسيوں افراد زخمي ہوئے ہيں اور يہي نہيں اسي عرصے ميں ايک خاتون اور دو مرد بھي خليفي اور سعودي فوجوں کے حملوں ميں شہيد ہوگئے ہيں گو کہ ان ميں سے ايک شہيد خليفي سعودي اذيتکدے ميں تشدد کا نشانہ بن کر شہيد ہوگئے تھے۔ خليفي اہلکار نے ان تمام حقائق کو نظر انداز کيا اور صدام کے وزير اطلاعات محمد سعيد الصحاف کي ياد زندہ کرتے ہوئے کہا: بحرين ميں امن و استحکام قائم ہوا ہے اور حالات بالکل معمول پر ہيں اور کہيں بھي کسي غير معمولي واقعے کي  کوئي اطلاع تاحال موصول نہيں ہوئي ہے۔

سعيد الصحاف وہ وزير اطلاعات تھے کہ آدھے بغداد پر امريکيوں کا قبضہ ہوچکا تھا اور وہ صحافيوں سے مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ عراق ميں بالکل خيريت ہے اور بغداد ميں معمول کي زندگي جاري و ساري ہے اور کسي قسم کے کسي غير معمولي واقعے کي کوئي اطلاع نہيں ملي ہے جبکہ وہي دن سقوط بغداد کا دن ثابت ہوا اور اسي دن صدام کي فوج کے تمام اعلي افسر اپنے اہل خانہ کے ساتھ بغداد ايئرپورٹ پر موجود تھے جو سب کے سب امريکہ سے آئے ہوئے ديو ہيکل ہوائي جہازوں ميں بيٹھ کر امريکہ چلے گئے اور صدام کي تينتيس سالہ جابرانہ آمريت کا خاتمہ ہوا۔