تعليم و تربيت کے بارے ميں اسلامي علما کي آرا و نظريات
تاريخ اسلام ميں تقريبا تمام علماء و دانشور مختلف علوم ميں مھارت رکھنے کے ساتھ ساتھ تعليم و تربيت ميں بھي صاحب نظر اور مھارت کے حامل ہوا کرتے تھے اس سے اسلام ميں تعليم وتربيت کي اھميت کا پتہ چلتا ہے لھذا ہم يہاں پر علما اسلام کي نظر ميں تعليم و تربيت کي اھميت اجاگر کرنے کے لئے ان کے بعض نظريات پيش کر رہے ہيں ۔
ابن سينا
شيخ الرئيس تعليم و تربيت کو بہت زيادہ اھميت ديتے ہيں انہوں نے اپني تين کتابوں رسالہ تدبير المنازل قانون کي کتاب اول کے فن سوم اور کتاب شفا کے مقالہ اول ميں تعليم و تربيت کے بارے ميں نظريات بيان کئے ہيں ابن سينا تعليم و تربيت ميں پانچ اصولوں کو نھايت اھميت ديتے ہيں وہ اصول يہ ہيں ايمان ، اخلاق حسنہ ، تندرستي، اور علم و ھنر، ان کا خيال ہے کہ بچے کو چھٹے سال سے مکتب بھيجنا چاھيے اس کي تندرستي کے لئے ورزش سے غفلت نہيں کرني چاھيے اور کوئي نہ کوئي فن و حرفہ سکھانا چاھيے تاکہ وہ بڑا ہوکر اپنے پيروں پر کھڑا ہوسکے۔
ابن سينا کہتے ہيں کہ :
والدين پر لازم ہے کہ جب بچہ جوان ہوجاے اور صنعت وحرفت ميں مھارت حاصل کرلے تو اس کي شادي کرديں اور اسے اپنے طرز پر زندگي گزارنے ديں۔ وه کھتے ہيں کہ والدين کو خيال رکھنا چاھيے کہ ان کا بچہ اچھے لوگوں کے ساتھ معاشرت اختيار کرے تاکہ وہ بھي نيک اور قابل بنے ۔
کيکاوس بن اسکندر
کيکاوس بن اسکندر قابوس نامہ ميں لکھتےہيں کہ والدين کو چاھيے کہ وہ بچون کا اچھا نام رکھيں اور انہيں عاقل و مھربان دايہ کے سپرد کريں، قرآن و دين سکھانے کے بعد انہيں گھوڑا سواري کے ساتھ ساتھ فن سپہ گري سے آراستہ کريں اور فنون بھي سکھائيں ۔ وہ لکھتے ہيں کہ بچے کے جوان ہونے کے بعد ديکھيں کہ اگر صالح ہوتو کسي کام ميں لگاکر دوسرے خاندانوں سے اس کے لئے رشتہ مانگيں تاکہ دوستي اور خويشاوندي ميں اضافہ ہو ليکن اگر اس ميں کسي طرح کي صلاحيت نہ ہو تو کسي مسلمان کي لڑکي کو مصيبت ميں مبتلا نہ کريں کيونکہ دونوں کو ايک دوسرے سے رنج و غم کے علاوہ کچھہ نہيں ملے گا، اسے چھوڑديں تاکہ جيسے چاھے زندگي گزارے ۔
امام محمدغزالي
غزالي کھتے ہيں کہ بچہ ماں باپ کے ہاتھوں ميں امانت ہے اس کا دل ودماغ پاک ہوتاہے وہ جوھر نفيس کي طرح تمام نقوش سے عاري بلکہ نقش پذير ہوتاہے ،امام غزالي کہتے ہيں بچہ زميں کي طرح پاک ہوتاہے اس ميں جس چيزکا بيج ڈالاجاے وہ اگ آتاہے اسے کھانے پينے کے آداب سکھانے چاھيں تيز تيز نہ کھاے اور نہ زيادہ کھاے ، ھر بچہ جس کي تربيت نہ کي جاے وہ شرير دروغ گو اور چور و لجوج و بے باک ہوگا۔ امام غزالي کہتے ہيں بچے کو مکتب ميں داخل کرانے کے بعد قرآن کي تعليم دي جاے اور جب سات سال کا ہوجاے تو نمازو طھارت سکھائي جاے اسي طرح حلال و حرام کي تعليم بھي شروع کي جاے ۔
سعدي شيرازي
سعدي شيرازي نے آيات قرآني اور روايات سے استفادہ کرتے ہوئے انقطاع الي اللہ تربيت روح ، خود سازي ، قناعت و احسان و عدالت اور صلح و امن پسندي پر تاکيد کي ہے اسي بناپر کہا جاسکتاہے کہ سعدي کي نظر مين ديني تربيت کي بہت زيادہ اھميت ہے ۔
ابن خلدون
ابن خلدون نے کتاب العبر ميں بچوں کي تعليم و تربيت کے لئے نئے نظريات پيش کئے ہيں ان کا خلاصہ يہ ہے "تعليم انساني زندگي کو تمام ميدانوں ميں منظم کرنے کے لئے نھايت اھم ہے کيونکہ انسان قوہ فکريہ کي بناپر حيوانون سے ممتاز ہے اسي فکر کے ذريعے وہ ايک دوسرے سے تعاون کرتاہے اور اپنا رزق تلاش کرتا ہے، يہي قوہ فکريہ اجتماعي زندگي ميں ہرہر قدم پر اس کي رھنمائي کرتي ہے اور اسي کے سہارے انبياء (ع) کي باتيں سمجھ ميں آتي ہيں اور ان کي پيروي کي جاتي ہے۔
ابن خلدون قرآن کو تعليم کي اساس مانتے ہيں اور بچوں کو قرآن کي تعليم دينے کو ضروري سمجھتے ہيں ان کا خيال ہے کہ حصول علم ايک تدريجي عمل ہے اور طالب علم کي صلاحيتوں کو مد نظر رکھنا چاھيے اور بے جاسختي نہيں کرنا چاھيے ۔
ابن خلدون کا خيال ہے کہ بعض معلمين طلبا کو نقصان پہنچاتے ہيں کيونکہ طلبا کي فھم و فراست کا خيال نہيں رکھتے ان کے خيال ميں حصول علم کے لئے سفر کرنا ضروري ہے اور وہ تحقيقي ،قابل عمل اور مفيد روشوں کے ذريعے تعليم دينے اور تربيت کرنے کے قائل ہيں۔
نتيجہ۔
تربيت کے معني يہ ہيں کہ انسان ايسے مربي کے تحت کام کرے جس کا معين ھدف ہو وہ مھربان اور آکاہ ہو اور اس کے پروگرام کے مطابق تربيت حاصل کرکے کمال کي منزلوں کي طرف بڑھے اور درحقيقت اپناحقيقي مقام حاصل کرلے يعني اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہوجاے، البتہ اسلام دين تعليم و تربيت ہے اور اس مقصد کے لئے اسلام نے تمام وسائل و ذرايع مھيا کر رکھے ہيں چنانچہ رسول اسلام (ص) معلم بھي ہيں اور مزکي بھي آپ (ص) اسوہ حسنہ اور حقيقي معني ميں انسان کامل ہيں، اسلام کا فلسفہ تربيت انسان کو کمال پر پہنچانے کا قائل ہے اور يہ کمال قرب الھي کے سوا کچھہ بھي نہيں ہے اور اسلامي تربيتي روش بھي ديني اور اخلاقي اقدار کي نيز تقوي الھي کي پابندي ہے۔
اسلامي تربيت کي خصوصيت يہ ہے کہ اس ميں انسان کي تمام ضرورتوں خواہ وہ مادي ہوں يامعنوي جسماني ہوں يا روحاني سب کا خيال رکھا گياہے اسي کے ساتھ نہ راہ افراط کو طے کرتاہے نہ راہ تفريط کو بلکہ ميانہ روي اور متعادل روش پيش کرتا ہے تاکہ انسان کي زندگي ميں توازن قائم رہے اسي کے ساتھ ساتھ اسلام مناسب مقامات پر رواداري اور اغماض نظر کا بھي قائل ہے، ان تعليمات کے ساے ميں مسلمانون نے صدر اسلام ميں ايسي عظيم تھذيب و تمدن کي بنياد رکھي تھي کہ جس نے تھوڑي سي مدت ميں ساري دنيا کو مسخر کرليا ، مسلمان اپنے دين کي پيروي کرکے ہر لحاظ سے ديگر قوموں سے آگے تھے بلکہ انہيں عالم انسانيت کا مربي کہا جاے تو بے جانہ ہوگا يہ صرف اس وجہ سے تھا کہ مسلمان قرآن و سنت کي پيروي کيا کرتے تھے دوسرے الفاظ ميں ان کي اس کاميابي کا راز اسلامي تعليم و تربيت تھي ليکن افسوس رفتہ رفتہ مسلمانون نے اپنے دين کو نظر انداز کرنا شروع کرديا اور اپني عظيم ثقافت سے دور ہوتے گئے جس کي وجہ سے دشمن ان پر غالب آگيا ، آج کل مسلمانوں کے گھروں اور اسکولوں ميں اسلامي تعليم و تربيت کے اصول بھلادے گئے ہيں، مسجدوں ميں تربيتي پہلو پھيکا پڑگياہے اسکولوں اور ديگر تعليمي اداروں ميں امتحانات ميں پاس ہونے اور نمبروں کے لئے پڑھائي ہوتي ہے اس سے کمال حاصل کرنا اب مقصود نہيں رھا، ھم مسلمان يا تو اپنے دين کے تربيتي اصولوں سے واقف ہي نہيں ہيں اور اگر ہيں بھي تو انہيں بروے کار نہيں لاتے درحقيقت مسلمان اسلام کے تربيتي اصولوں کو اب کوئي اھميت ہي نہيں ديتا ۔اگر عالم اسلام يہ چاھتا ہے کہ آج کي دنيا مين مغرب کي ھمہ گير يلغار کے مقابلے اپني ھويت کو محفوظ رکھے تو اس کے پاس اسلامي تعليمات پر عمل کرنے کے علاوہ کوئي چارہ نہيں ہے ۔
جاري ہے
بشکريہ : الحسنين ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
تمام والدین کی آرزو
سیرت معصومین علیھم السلام میں تعلیم و تربیت
خوش اور توانا والدین
اسلامی تربیت کی خصوصیات
میاں بیوی کے درمیان ہنسی مذاق کے قوائد ( حصّہ دوّم )