ايران کے بارے ميں آئي اے اي اے کي تازہ رپورٹ
اسلامي جمہوريہ ايران اور گروپ پانچ جمع کے درميان بغداد ميں ہونے والے مذاکرات کے بعد ايک دن سے بھي کم کے عرصے ميں ايٹمي توانائي کي عالمي ايجنسي کے سربراہ يوکيا امانو نے ايران کے بارے ميں نئي رپورٹ جاري کي ہے-
ابنا: ايک ايسي رپورٹ کہ جس ميں اگرچہ ايران کے ايٹمي پروگرام بارے مين بعض مثبت نکات بھي ہيں ليکن اس کے باوجود اس ايجنسي کي گزشتہ چند برسوں کي رپورٹوں کي مانند اس ميں بھي ايران کے پرامن ايٹمي پروگرام کے بارے ميں شکوک و شبہات کا اظہار کيا گيا ہے- يوکيا امانو کي تازہ رپورٹ ميں اس ايجنسي کے معائنہ کاروں کے حوالے سے کہا گيا ہے کہ يورينيم کي ستائيس فيصد افزودگي کي علامتيں مشاہدہ کي گئي ہيں- اگرچہ اس بات کي جانب اشارہ کيا گيا ہے کہ بيس فيصد سے زيادہ افزودگي کا مطلب يہ نہيں ہے کہ ايٹمي ہتھياروں کي تياري کے ليے ضروري يورينيم افزودہ تيار کر رہا ہے- تقريبا فيصد يورينيم کو افزودہ کرنے سے ايران کا مقصد تہران کے تحقيقاتي ري ايکٹر کے ليے ايندھن کي پليٹيں تيار کرنا ہے کہ جو ايٹمي طبي تحقيقات اور کينسر کے مريضوں کے ليے ريڈيو ميڈيسن کي تياري کے ميدان ميں کام کر رہا ہے اور يہ عمل آئي اے اي اے کے معائنہ کاروں کي مکمل نگراني ميں انجام پا رہا ہے-اس رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ايٹمي توانائي کي عالمي ايجنسي ميں اسلامي جہوريہ ايران کے نمائندے علي اصغر سلطانيہ نے ايجنسي کي اس رپورٹ کو مجموعي طور پر ايران کي ايٹمي سرگرميوں کے پرامن ہونے اور ايٹمي ٹيکنالوجي کے ميدان ميں ايران کي کاميابيوں خصوصا عالمي ايجنسي کے ساتھ ايران کے مکمل تعاون کي دليل اور ثبوت قرار ديا ہے- انہوں نے اس بات پر زور ديا کہ بورڈ آف گورنرز کو پيش کي گئي يوکيا امانو کي گيارہ صفحات پر مشتمل رپورٹ اسلامي جمہوريہ ايران کي پرامن ايٹمي سرگرميوں پر آئي اے اي اے کي مکمل نگراني کو ظاہر کرتي ہے-يوکيا امانو کي اس تازہ رپورٹ کا چار جون کو ويانا ميں بورڈ آف گورنرز کے آئندہ اجلاس ميں جائزہ ليا جائے گا- اس رپورٹ کا ايران اور گروپ پانچ جمع کے درميان ہونے والے آئندہ مذاکرات پر اثر پڑے گا اور اعتماد سازي کے ليے اقدامات کا انجام دينا ضروري ہے-اس نقطہ نظر سے ايٹمي ايجنسي کي تازہ رپورٹ ايک بار پھر ثابت کرتي ہے کہ آئي اے اي اے ايران کي پرامن ايٹمي سرگرميوں کي نگراني کر رہي ہے اور ايران کي ايٹمي سرگرميوں ميں کسي قسم کا انحراف نہيں پايا جاتا ہے-اس بنا پر دونوں فريقوں کي جانب سے مذاکرات کو جاري رکھنے کو مثبت قرار ديا جا سکتا ہے- ليکن کہا جا سکتا ہے کہ ان مذاکرات کي کاميابي کے متعدد عوامل ضروري ہيں- ان ميں سے ايک يہ ہے کہ ايٹمي مسئلے ميں غير منطقي مطالبات کرنے سے گريز کيا جائے کہ جو برسوں سے يورينيم کي افزودگي کو روکنے پر ٹکے ہوئے ہيں- ان مطالبات کا جاري رہنا اين پي ٹي معاہدے ميں ديئے گئے ايران کے حقوق کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے اور ان پر اصرار کرنا آگے کي طرف حرکت کي راہ ميں رکاوٹ ہے-لہذا اس کے باوجود کہ اس بات سے اتفاق کيا گيا ہے کہ ايران اور گروپ پانچ جمع کے درميان مذاکرات ايک ماہ سے بھي کم کے عرصے ميں ماسکو ميں دوبارہ ہوں گے، مبصرين کے خيال ميں ايک قابل قبول حل تک پہنچنے کے ليے دونوں جانب سے اعتماد سازي کے قدم اٹھانا ضروري ہے-يہ بات مسلم ہے کہ آئي اے اي اے کے ساتھ ايران کا تعاون اور پندرہ مہينے کے وقفے کے بعد مذاکرات کي بحالي کے ليے کيتھرين ايشٹن کي درخواست کو ايران کي جانب سے قبول کرنا دو طرفہ تعاون اور مذاکرات کے بارے ميں ايران کي مثبت اور نيک نيتي کا اظہار ہے- ايران کے ساتھ مذاکرات صرف اسي صورت ميں کامياب ہو سکتے ہيں کہ جب بين الاقوامي معاہدوں ميں تسليم شدہ ايران کے حقوق کا احترام کيا جائے گا-