سعودی عرب، ریاض اور الشرقیہ میں عوامی مظاہرے
اطلاعات کے مطابق کل رات جزیرہ نمائے عرب کی مشرق میں واقع القطیف اور دارالحکومت ریاض میں سینکڑوں مظاہرین نے بے گناہ قیدیوں کی رہائی، سیاسی اصلاحات اور بحرین سے سعودی افواج کے فوری انخلاء کا بھی مطالبہ کیا۔
اہل البیت نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق قطیف میں مشعل بردار نوجوانوں نے بحرینی عوام کی حمایت اور آل خلیفہ و آل سعود کے مظالم کی مذمت کے عنوان سے جلوس نکالا اور بحرین سے آل سعودی گماشتوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا۔
آل سعود کی فورسز نے قطیف میں وسیع سیکورٹی انتظامات کررکھے تھے۔ ریاض میں بھی مظاہروں پر پابندی کے باوجود مظاہرے ہوئے ہیں۔
آل سعود خاندان کے دارالحکومت ریاض میں سینکڑوں خواتین نے بے گناہ قیدیوں کی تصویریں اور پھول اور مشعل اٹھا کر حجاز و نجد اور جنوبی و مشرقی علاقوں میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
سینکڑوں مظاہرین نے بحرین سے سعودی افواج کے فوری انخلاء کا بھی مطالبہ کیا۔ ریاض کے باشندوں نے جمعہ کے روز وزارت داخلہ کی عمارت کے سامنیےاکٹھے ہوکر "فراموش شدہ قیدیوں" کی رہائی کا مطالبہ کیا جنہیں اصلاحات کی حمایت کرنے پر قید کرلیا گیا ہے۔
سعودی عرب میں کئی افراد کو گذشتہ 16 سال سے مقدمہ چلائے بغیر حبس بے جا میں رکھا گیا ہے اور ان کا اب تک اپنے اہل خانہ سے رابطہ نہیں ہوسکا ہے اور نہ ہی ان کے اہل خانہ کو ان سے ملاقات کی اجازت دی گئی ہے اسی وجہ سے انہیں منسیون (فراموش شدہ) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
جمعرات کے روز بھی الشرقیہ کے علاقے کے شہر القطیف میں بھی ہزاروں افراد نے مظاہرہ کرکے انسانی حقوق کے احترام، سیاسی قیدیوں کی رہائی، ملک میں اصلاحات کے عمل کے آغاز اور بحرین سے آل سعود کے فوجیوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا۔
سعودی عرب نے ایسے حال میں بحرین میں فوجی مداخلت کی ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے باہمی معاہدے کے تحت ان ریاستوں کی فوجیں صرف ایسی صورت میں دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت کرسکتی ہیں کہ جب اس ملک کو بیرونی جارحیت کا سامنا ہو گوکہ عراق نے 1990 میں کویت پر قبضہ کیا تو ان ریاستوں کی فوجیں حرکت مین ہی نہیں آئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بحرین میں عوامی انقلاب کا آغاز ہوچکا ہے عوام کے پاس کسی قسم کا ہتھیار نہیں ہے اور وہ حکومت کے خلاف لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ تہذیب یافتہ قوموں کی طرح اپنے حقوق کے حصول کے لئے پرامن ریلیاں اور جلوس نکال رہے ہیں۔
بحرین میں انقلابی تحریک کے دوران حتی عوام نے ایک شیشہ بھی نہیں توڑا اور ایک کار کو بھی نقصان نہیں پہنچایا چنانچہ اس ملک کو بیرونی مداخلت یا بیرونی جارحیت کے خطروں کا سامنا نہیں ہے بلکہ اب اس ملک پر آل سعود سمیت خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کی مطلق العنان خاندانی حکومتوں کی طرف سے جارحیت کی گئی ہے جو عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
آل سعود نے مارچ کے مہینے میں 1000 شہریوں کو مظاہروں کے اہتمام کے جرم میں قید کرلیا ہے۔ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ آل سعود کے جلاد قیدیوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر ٹارچر کر رہے ہیں۔
وہابی مفتیوں نے عوام کی طرف سے اپنے حقوق کے سلسلے میں مظاہروں کو حرام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آل سعود خاندان کی حکومت کے خلاف ہر قسم کا احتجاج اسلام کے خلاف ہے۔