عید نوروز کی تاریخ (حصّہ دوّم)
تاریخی لحاظ سے سب سے پہلے ولاش اول اشکانی (78-51 پ م) کی سلطنت کے دور میں نوروز کے جشن کے متعلق شواہد ملتے ہیں ۔
ولاش اول کو بیشتر ایرانی رسوم از جملہ " سدہ " کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔ بدقسمتی سے اشکانی دور حکومت میں ہونے والے نوروز کے مراسم کے متعلق تاریخی معلومات کی کمی کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کیۓ جا سکے ہیں ۔ اس کے برعکس ساسانی دور حکومت میں عید نوروز مناۓ جانے کے واضح شواھد اور اسناد موجود ہیں ۔ ساسانی دور کی تاریخی اور ادبی کتابوں میں نوروز کے جشن کا ذکر ملتا ہے ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے رسم و رواج میں تبدیلیاں آتی رہیں ۔ کچھ روایات ختم ہو گئیں تو کچھ اسی طرح آنے والے ادوار میں بھی باقی رہیں ۔
بار عام شاھانہ کے مراسم اسلامی دور کے بعد بھی مناۓ جاتے رہے اور اس کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر غیر ایرانی بادشاہ بھی آتے تو وہ بھی خود کو عید نوروز جیسے ایرانی مراسم منانے کے لیۓ تیار کیا کرتے تھے ۔ عباسی خلفاء جو خود کو ساسانی شاہنشاہوں کی لڑی سمجھتے تھے ، یہ خلفاء بھی اپنے ادوار میں عید نوروز کا جشن بڑے پروقار انداز میں مناتے رہے ہیں ۔
ساسانی دور حکومت میں نوروز کا جشن مناۓ جانے کے متعلق قابل اطمینان شواھد ہونے کے باوجود ہمارے پاس ایسے دلائل موجود نہیں ہیں کہ جن کی بنا پر ہم نوروز کے جشن کے آغاز کو ساسانی حکومت سے بھی بہت قدیمی تصور کر لیں ۔ دنیا میں برگزار ہونے والے مراسم کی اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بیشتر مراسم یا جشن پہلے پہل عوامی سطح پر مناۓ جاتے رہے اور حکومتی سطح پر ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ اس لیۓ نوروز کے جشن کے متعلق بھی یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ شاید نوروز کو ساسانی یا اشکانی ادوار میں حکومتی سرپرستی حاصل ہونے سے بہت پہلے عوامی سطح پر شروع کر دیا گیا تھا اور دور حاضر کی طرح قدیم دور میں بھی ایران کے باشندے اسی طرح اس دن کا جشن منایا کرتے تھے ۔
جاری ہے
تحریر : سید اسداللہ ارسلان
متعلقہ تحریریں:
فارس تہذیب کے حامل ممالک میں نوروز کا جشن
ایرانی ثقافت میں "جشن سده "
ایرانی ثقافت میں " شب یلدا "
ایرانی ثقافت میں " شب یلدا " ( حصہ دوّم )
جمناسٹک گھر (زور خانہ)