سید رضی اور دلیر روح
سید رضی ایك بے باك اور بر جستہ مقرر، علم كے بحر بےكراں اور جوش و ولولہ كی موجوں سے بھر پور اور شجاعانہ روح كے حامل تھے جس كی توجہ ہمیشہ ساحل كے نظّاروں كی طرف مبذول رہتی تھی آپ نے اپنے نیزارِ دل سے دلیرانہ مجاہدت كے بلند قد و قامت والے مستحكم درخت اُگائے ہیں ۔ آپ كبھی كسی صاحب مقام و منصب سے گھبراتے نہیں تھے، سید عالی مقام تمام خلفاء بنی عباس كو حكومت اسلامی كی خلافت و ولایت كا غاصب جانتے تھے ۔ وقت كے غیر مناسب حالات كی بنا پر منفی جنگ كرنے پر مجبور تھے پھر بھی كسی لمحہ ظلم و ستم كے نظام كو اكھاڑ پھینكنے، كربلا كی تبلیغ، عاشورہ كے احیاء كی فكر سے غافل نہ ہوئے اور ہمیشہ فرصت اور زمانے كی امداد اور نصرت كے انتظار میں رہتے تھے تا كہ طاغوت اور ظالم و جابر حكام كے خلاف حسینیوں كے دلوں كے جذبات كو ابھار سكیں نیز ظلم و فساد كی جڑوں كو خشك كر كے امت اسلامی كی باگ ڈور كو اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور پھر سے امام علی علیہ السلام كی عدالت كو پھیلا سكیں ۔ سید مجاہد اپنے نئے انقلابی افكار كو خاص مجالس میں انقلابی اشعار كے ضمن میں قریبی دوستوں سے بیا ن كر دیا كرتے تھے. اور اپنی سیاسی اور بلند فكری كی وجہ سے خود كو خلیفہ سے بہتر سمجھتے تھے ۔
ایك دن سید رضی " الطایع باللہ " كے پاس بیٹھے تھے اور خلیفہ كے جاہ و جلال سے بے توجہی كے ساتھ اپنی داڑھی كو ہاتھ سے پكڑ كر ناك كی طرف لے جا رہے تھے روباہ صفت خلیفہ نے چاہا كہ سید پر طنز كرے اور ان كے سامنے اپنی قدرت كی رعنائیوں كو پیش كرے ۔ اس نے سید كی طرف رخ كركے كہا : میرے خیال سے تم خلافت كی بو استشمام كر رہے ہو ؟ آپ نے ہمیشہ كی طرح متانت اور شجاعت كے ساتھ جواب دیا : بلكہ میں نبوت كی خوشبو سونگھ رہا ہوں !
مولف: محمد ابراھیم نژاد
مترجم: زهرا نقوی
(گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)
متعلقہ تحریریں:
سید رضی، علم و معرفت كے دلباختہ
تقدیر بنا دینے والا خواب
سید رضی موسوی
ابن شہر آشوب كی رحلت
ابن شہر آشوب غیروں كی نظر میں