خلیفہ کا دسترخوان
دوسری ہجری قمری کے مشہور عالم دین وفقیہ شریک بن عبداللہ اس بات کے لئے ہرگز راضی نہیں تھے کہ عباسی خلیفہ مہدی بن منصور انھیں منصب قضاوت کے مقررکرے کیونکہ شریک بن عبداللہ حکومت جور سے دور ہی رہنا چاہتے تھے ۔
عباسی خلیفہ اسی طرح یہ بھی چاہتا تھا کہ شریک بن عبداللہ اس کے بیٹوں کو علم حديث کی تعلیم بھی دیں مگرشریک نے یہ کام قبول کرنے سے بھی انکارکر دیا اور بدستور اپنی سادہ زندگي جاری رکھا ۔
ایک دن خلیفہ نے شریک کو اپنے دربار بلایا اورکہنے لگا آج آپ کو ان تین کاموں سے ایک کو بہرحال قبول کرنا ہوگا یا توآپ قاضي بن جائيں یا میرے بچوں کے خصوصی معلم بنیں یا پھر میرے ساتھ کھانا کھائيں شریک نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا کہ چونکہ مجبورہوں اس لئے تیسری پیشکش کوقبول کرلیتا ہوں ۔
عباسی خلیفہ مہدی بن منصور نے حکم دیا کہ لذیذترین کھانے تیار کئے جائيں دستر خوان بچھایا گیا انواع واقسام کے کھانے دسترخوان پرچن دئے گئے ۔ شریک بن عبداللہ نے اس سے پہلے اتنا مجلل اوررنگین دسترخوان نہيں دیکھا تھا اورانھوں نے دسترخوان پرموجود انواع واقسام کے کھانے نوش کئے ۔ خلیفہ کے وزیرنے خلیفہ کے کان میں کہا خداکی قسم کی یہ مرد فلاح یافتہ اورکامیاب نہیں ہوگا ابھی کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ شریک بن عبداللہ نے قاضی کا عہدہ بھی قبول کرلیا اورخلیفہ کے بچوں کی استادی بھی منظورکرلی اوربیت المال سے ان کے لئے تنخواہ بھی مقررہو گئي ۔ ایک شریک کی خزانہ دارسے کچھ بحث ہوگئی خزانہ دار نے کہا کہ کیا آپ نے ہمیں گیہوں بیچا ہے جواس قدر گستاخی کر رہے ہيں ؟ شریک بن عبداللہ نے جواب دیا گیہوں سے بھی زیادہ قیمتی چیزتیرے ہاتھوں فروخت کردی ہے میں نے اپنا دین تم لوگوں کے ہاتھوں بیچ دیا ہے ۔
بشکریہ اردو ریڈیو تہران
متعلقہ تحریریں :
فیصلہ کن ارادہ
مدینہ میں تیاریاں
دشمن کے لشکر کے ٹھہرنے کی جگہ
عباس کی رپورٹ
سیاسی پناہ گزین