خواتين سے متعلق روايات ميں ظالمانہ فکر و عمل سے مقابلہ
ہاں البتہ اگر کوئي قانون يا بہت شديد قسم کي محبت يا مستحکم ايمان جيسا معنوي عامل موجود ہو تو وہ ان تمام ظلم و ستم کا سدّباب کرسکتا ہے۔ البتہ ايمان کو مضبوط و مستحکم ہونا چاہيے ورنہ بہت سے علماء ہيں کہ جن کا ايمان تو بہت اچھاہے ليکن اُسي کے ساتھ ساتھ اُن کا اپني زوجات سے برتاو اور سلوک اچھا نہيں ہے لہٰذا ايسے لوگ ہماري مجموعي بحث کے زمرے ميں آتے ہيں۔ ہميں صرف اِس بات کي وجہ معلوم کرني چاہيے کہ تاريخ ميں خواتين ہميشہ ظلم و ستم کا نشانہ کيوں بني ہيں؟ پيغمبر اکرم (ص) کے زمانے ميں بھي يہ ظلم و ستم ہوا ہے اور آنحضرت (ص) نے اِس ظلم سے مقابلہ کيا ہے۔ يہ جو پيغمبر اکرم (ص) نے خواتين کے بارے ميں اتني باتيں ارشاد فرمائي ہيں، صرف اِسي ظلم و ستم سے مقابلے کيلئے ہيں۔ اگر وہ صرف مقامِ زن کو بيان کرنا چاہتے تو اِس قسم کے پُرجوش و پُراحساس بيانات کي ضرورت نہيں تھي۔ خواتين کے بارے ميں حضرت ختمي مرتبت (ص) کے احساسات و اظہارات اِس چيز کي عکاسي کرتے ہيں کہ آپ ايک چيز سے مقابلہ کرنا چاہتے ہيں اور وہ خواتين پر ہونے والا ظلم ہے اور پيغمبر اکرم (ص) اِس ظلم کے مقابل کھڑے ہيں۔
معاشرتي اورگھريلو زندگي ميں خواتين کے ساتھ زندگي گزارنے کے بارے ميں حضرت ختمي مرتبت (ص) اور آئمہ اہل بيت عليہم السلام سے جو روايات ١ نقل کي گئي ہيں وہ اِسي ظالمانہ فکر اور ستمگرانہ رويے اور عمل سے مقابلے کي خاطر ہے۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ يہ ظلم و ستم ہمارے زمانے ميں بھي جاري ہے البتہ صرف ہمارے معاشرے سے مخصوص نہيں ہے۔ ليکن اس بات کي طرف ہم سب کي توجہ ہوني چاہيے کہ پوري دنيا ميں يہ ظلم موجود ہے اور مغرب ميں بہت ہي بدترين شکل ميں موجود ہے۔
حوالہ جات :
١ وسائل الشيعہ، جلد ٢٠، صفحہ ٣٢٤۔ ٣٥٤
کتاب کا نام | عورت ، گوہر ہستي |
تحریر | حضرت آيت اللہ العظميٰ امام سيد علي حسيني خامنہ اي دامت برکاتہ |
ترجمہ | سيد صادق رضا تقوي |
پیشکش | شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان |
متعلقہ تحریریں :
خواتين، معاشرہ اور حجاب!
ایران کا اسلامي انقلاب اورحقوق نسواں!