• صارفین کی تعداد :
  • 3262
  • 6/23/2010
  • تاريخ :

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی دینی حالت

دینی حالت

عہد جاہلیت کے دوران ملک عرب میں بت پرستی کا عام رواج تھا اور لوگ مختلف انداز میں اپنے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں کعبہ مکمل بت خانہ میں بدل چکا تھا جس میں تین سو ساٹھ سے زیادہ اقسام اور مختلف شکل و صورت کے بت رکھے ہوئے تھے اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا بت وہاں موجود نہ ہو۔ حج کے زمانے میں ہر قبیلے کے لوگ اپنے بت کے سامنے کھڑے ہوتے، اس کی پوجا کرتے اور اس کو اچھے ناموں سے پکارتے تھے۔

ظہورِ اسلام سے قبل یہود و نصاریٰ بھی جو کہ اقلیت میں تھے، جزیرہ نما عرب میں آباد تھے۔ یہودی اکثر شمال عرب کے گرد و نواح کے علاقوں، مثلاً یثرب، وادی القریٰ، تیما، خیبر اور فدک میں رہا کرتے تھے، جب کہ عیسائی نواح جنوب میں یمن اور نجران جیسی جگہوں پر بسے ہوئے تھے۔

انہی میں چند لوگ ایسے بھی تھے جو وحدانیت کے قائل اور خدا پرست تھے اور وہ خود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے پیروکار سمجھتے تھے، مورخین نے ان لوگوں کو حنفاء کے نام سے یاد کیا ہے۔

جب حضرت محمد مصطفی پر وحی نازل ہوئی، اس وقت عرب میں مذہب کی جو حالت و کیفیت تھی اسے حضرت علی علیہ السلام نے اس طرح بیان کیا ہے:

…واھل الارض یومئذ ملل متفرقة واھواء منتشرة وطرایق متشتة بین مشبہ للہ بخلقہ او ملحد فی اسمہ او مشیر الی غیرہ فھداھم بہ من الضللة وانقذھم بمکانہ من الجہالة

”اس زمانے میں لوگ مختلف مذاہب کے ماننے والے تھے، ان کے افکار ایک دوسرے کی ضد اور طریقے مختلف تھے۔ بعض لوگ خدا کو مخلوق سے مشابہ کرتے تھے۔ (ان کا خیال تھا کہ خدا کے بھی ہاتھ پیر ہیں اس کے رہنے کی بھی جگہ ہے اور اس کے بچے بھی ہیں) وہ خدا کے نام میں تصرف بھی کرتے۔ اپنے بتوں کو خدا کے مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے۔ مثلاً لات کو اللہ، عزیٰ کو عزیز اور منات کو منان کے ناموں سے یاد کرتے۔“

بعض لوگ خدا کے علاوہ دوسری اشیاء کو بھی پوجتے تھے، بعض لوگ دہریئے تھے اور صرف فطرت حرکات فلکیہ اور گردش زمان ہی کو خود پر موثر سمجھتے تھے۔

خداوند تعالیٰ نے پیغمبر کے ذریعہ انہیں گمراہی سے نجات دلائی اور آپ کے وجود کی برکت سے انہیں جہالت کے اندھیرے سے باہر نکالا۔

جب ہم بت پرستوں کے گوناگوں عقائد کا مطالعہ کرتے اور ان کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انہیں اپنے بتوں سے ایسی زبردست عقیدت تھی کہ وہ ان کے خلاف ذرا سی بھی توہین برداشت نہیں کرسکتے تھے، اسی لیے وہ حضرت ابوطالب کے پاس جاتے اور پیغمبر کی شکایت کرتے اور کہتے کہ وہ ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اور ہمارے دین و مذہب میں برائیاں نکال رہے ہیں  وہ وجود خدائے مطلق و خالق اور پروردگار کے معتقد و قائل تو تھے اور اللہ کے نام سے اسے یاد کرتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی وہ بتوں کو تقدس و پاکیزگی کا مظہر اور انہیں قابل پرستش سمجھتے تھے، وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ بت ان کے معبود تو ہیں مگر ان کے خالق نہیں چنانچہ یہی وجہ تھی کہ جب رسول خدا ان سے گفتگو فرماتے تو یہ ثابت نہیں کرتے تھے کہ خداوند تعالیٰ ان کا خالق ہے بلکہ ثبوت و دلائل کے ساتھ یہ فرماتے کہ خدائے مطلق واحد ہے اور ان کے بنائے ہوئے معبودوں کی حیثیت و حقیقت کچھ بھی نہیں۔

قرآن مجید نے مختلف آیات میں اس امر کی جانب اشارہ کیا ہے یہاں اس کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

لئن سالتھم من خلق السموات والارض لیقولن اللہ

”ان لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے اللہ نے۔“

مانعبد ھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی

”ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں۔“

اس کے علاوہ وہ بت پرستی کی یہ بھی تعبیر پیش کرتے تھے:

ھوٴلاء شفائنا عنداللہ

”یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں۔“ 

عنوان : تاریخ اسلام

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان

بشکریہ پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی


متعلقہ تحریریں :

تاریخ اسلام