اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی اجتماعی حالت
جزیرہ نما عرب کے اکثر لوگ اپنے مشاغل اور اقتصادی تقاضوں کے باعث صحراء نشینی کی زندگی اختیار کئے ہوئے تھے۔ کل آبادی کا چھٹا حصہ ایسا تھا جو شہروں میں آباد تھا۔ شہروں میں جمع ہونے کی وجہ یا تو ان کا تقدس تھا یا ان میں تجارت ہوتی تھی، چنانچہ مکہ کو دونوں ہی اعتبار سے اہمیت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ شہروں میں آباد ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کی زمینیں سرسبز و شاداب تھیں اور ضرورت پوری کرنے کے لیے پانی نیز عمدہ چراگاہیں بھی موجود تھیں۔ یثرب، طائف، یمن، حیرہ، حضر موت اور عسان کا شمار ایسے ہی شہروں میں ہوتا تھا۔
عرب اپنے لب و لہجہ اور قومی عادت و خصلت کے اعتبار سے شہر نشین عربوں کی بہ نسبت اچھے سمجھے جاتے تھے۔ اسی لیے عرب کے اہل شہر اپنے بچوں کو صحراؤں میں بھیجتے۔ جہاں وہ کئی سال تک رہتے تاکہ ان کی پرورش اسی ماحول اور اسی تہذیب و تمدن کے گہوارے میں ہو سکے۔
جو لوگ شہروں میں آباد تھے ان کی سطح فکر زیادہ وسیع و بلند تھی اور ایسے مسائل کے بارے میں ان کی واقفیت بھی زیادہ تھی جن کا قبیلے کے مسائل سے کوئی تعلق نہ تھا۔
صحراء نشین لوگوں کو شہری لوگوں کی بہ نسبت زیادہ آزادی حاصل تھی۔ اپنے قبیلے کے مفادات کی حدود میں رہ کر ہر شخص کو یہ حق حاصل تھا کہ عمومی طور پر وہ جو چاہے کرے۔ اس معاملے میں اہل قبیلہ بھی اس کی مدد کرتے تھے۔ اسی لیے ان کے درمیان باہمی جنگ و جدال اور مال و دولت کی غارتگری ایک معمولی چیز بن گئی تھی۔ چنانچہ عربوں میں جنہوں نے شجاعت و بہادری کے کارنارمے انجام دیئے ہیں ان میں اکثر صحراء نشین تھے۔
عنوان : تاریخ اسلام
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
بشکریہ پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی