سورۂ یوسف (ع) کی 66 ویں آیت کی تفسیر
" قال لن ارسلہ معکم حتّی تؤتون موثقا مّن اللہ لتاتنّنی بہ الّا ان یّحاط بکم فلمّا اتوہ موثقہم قال اللہ علی ما نقول وکیل"
( یعنی ، حضرت یعقوب علیہ السلام نے ) فرمایا : میں ہرگز اس ( بنیامین ) کو تم لوگوں کے ساتھ نہیں بھیجوں گا مگر یہ کہ اللہ کو ( حاضر و ناظر قرار دے کر ) ایک عہد مجھ سے کرو کہ اسے تم میرے پاس ضرور واپس لاؤ گے ، سوائے اس کے کہ خود تم لوگ ( کسی مصیبت میں ) گرفتار ہوجاؤ پس جب انہوں نے [یعقوب ( ع) سے ] پکا وعدہ کرلیا تو انہوں نے کہا : ہم جو کچھ بھی قول و قرار کرتے ہیں اللہ اس پر وکیل و ( نگراں ) ہے ۔
حضرات ! جیسا کہ آپ کے پیش نظر ہے ، قحط اور خشکسالی کے زمانے میں ، ایک بڑے خاندان کا پیٹ پالنا کس قدر سخت کام ہے حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو مصر بھیجکر غلہ کا انتظام کیا مگر وہ ایک مدت کے لئے ہی تھا باپ کو آئندہ کی بھی فکر تھی اور بیٹوں کی طرف سے اصرار تھا کہ مصر کے خزانہ دار نے بنیامین کو بھی ساتھ لانے کی تاکید کی ہے اور کہہ دیا ہے کہ اگر اپنے پدری بھائی کو ساتھ نہ لائے تو ہم کو صورت نہ دکھانا ۔ اب یوسف (ع) کی جدائی کا غم برداشت کرنے والے باپ کے لئے یوسف (ع) کے دوسرے بھائی کو بھی ان کے حاسد بھائیوں کے حوالے کردینا ایک مشکل کام تھا لہذا جناب یعقوب (ع) نے جیسا کہ آیت سے واضح ہے ، یوسف (ع) کے بھائیوں سے قول و قرار لے لینا ضروری سمجھا اور کہا کہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر پہلے عہد کرو کہ بنیامین کو صحیح و سالم میرے پاس واپس لاؤگے تبھی میں اس کو ساتھ لے جانے دونگا ورنہ میں تم پر اعتماد نہیں کرسکتا، صرف تم لوگوں پر اعتماد کرکے انہیں ہرگز ساتھ نہیں بھیجوں گا ۔عہد کرو کہ اگر تم سب لوگ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوئے اور میرے پاس واپس آئے تو بنیامین کو بھی ساتھ لے کر آؤ گے گویا یعقوب (ع) کا مطلب یہ تھا کہ اگر یوسف (ع) کی طرح کا کوئی حادثہ بنیامین کے ساتھ پیش آیا تو یاد رکھنا کہ میں تم لوگوں کی صورت دیکھنا پسند نہیں کروں گا اور جب لڑکوں نے عہد کیا تو بنیامین کو ساتھ کردیا مگر یہ باور کرادیا کہ خدا کو درمیان میں رکھ کرکیا ہوا عہد ہرگز توڑنے کی فکر نہ کرنا کیونکہ اپنے سامنے کئے ہوئے عہد کا خود خدا ضامن و نگراں ہے وہ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا ۔
اردو ریڈیو تہران
متعلقہ تحریریں:
سورہ یوسف ۔ع ۔ ( 61-56) ویں آیات کی تفسیر
سورۂ یوسف (ع) کی 55 ویں آیت کی تفسیر