• صارفین کی تعداد :
  • 2478
  • 5/9/2010
  • تاريخ :

فلسطین، اقبال کی نظر میں

قدس

بادی النظر میں شاید یہ بات عجیب معلوم ہو کہ ایک ایسی شخصیت جو صہیونستی غاصب ریاست کی تشکیل سے پہلے ہی اس دنیا سے جا چکی تھی اس کے افکار، گفتار اور نوشتار نے کس حد تک اس واقعہ کی کامیاب پیش بینی کی اور اس سلسلے میں اس کی رہنمائی موجودہ دور کے لوگوں کے لیے سمت دہندہ ہے۔

     حق یہ ہے کہ علامہ اقبال نے ایک روشن خیال متعہد اور دور اندیش مصلح کے طور پر اسلامی معاشرے کی مصلحتوں کو اپنی تلاش اور جدوجہد کا مطمح نظر قرار دے رکھا تھا اوراپنے اردگرد موجود لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کررکھی تھیں۔

     دنیا اور بین الاقوامی سیاست سے متعلق اقبال کی شناخت نے معاصر مسلمانوں کے لیے راہ کی دشواریاں اور اس کی پرخطر کھائیوں اور گھاٹیوں کو واضح کردیا اور اس کے نتیجے میں ان مناسب حکمت عملیوں کو، جو ان کی عقل رسا سے ظہور پذیر ہوئیں انہوں نے اپنے گہرے عشق سے ممزوج کرکے اپنے اشعار و مکتوبات کے ذریعے دوسروں کو منتقل کیا۔

     اٹھارویں سے بیسویں صدی تک اہل مغرب کی مہم جوئی ،نفع اندوزی اور تفوق طلبی جس کی وجہ سے ان کے طمع کے تیز اور نوکیلے دانت مشرقی ممالک کی سرزمینوں میں گڑھے ہوئے تھے، اور دوسری طرف مسلمانوں کی عدم آگہی اور بے توجہی نے اقبال کو آئندہ نسلوں کے مستقبل کے بارے میں پریشان کیا ہوا تھا۔ اسی دوران اسلامی ممالک کے سربراہوں کی نالائقیاں، خودفروشیاں اور غداریاں تھیں کہ وہ اس بات کے لیے تیار تھے کہ کسی قیمت پر بھی اپنے ملکوں کو اغیار کے ہاتھ بیج دیں اور اپنی چند روزہ طاقت، مال اور حکومت کو باقی رکھیں اور اس طرح مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ بے پناہ اور بے آسرا کردیں اور یہی فکر یں اور اندیشے اس آگاہ مصلح کو شب و روز مشغول کیے رکھتے تھے۔ ان مسائل اور مشکلات کے حل کی راہ جو اقبال نے دکھائی وہ سب کے لیے اظہر من الشمس اور آشکار ہے یعنی خود شناسی یا اپنے آپ کو پالینا اور علمی و تمدنی پس ماندگی کو دور کرنا ۔ ان کا کہنا تھا :

 

گفت جانا محرم اسرار شو
خاور از خواب گران بیدار شو
ہیچ قومی زیر چرخ لاجورد
بی جنون ذو فنون کاری نکرد
احتساب خویش کن از خود مرو
یک دو دم از غیر خود بیگانہ شو
تا کجا این خوف و وسواس و ہراس
اندر این کشور مقام خود شناس
شعلہ ای از خاک آن باز آفرین
آن طلب، آن جستجو باز آفرین

 

     اس مجموعی خوف و اندیشہ کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے خاص موضوعات بھی تھے جنہوں نے اقبال کے فکر کو اپنی طرف مبذول کررکھا تھا۔ ان میں سے بعض قومی، بعض علاقائی اور بعض بین الاقوامی تھے۔

     ان اہم ترین فکروں اور اندیشوں میں سے ایک موضوع فلسطین کا تھا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عالم اسلام کے عین وسط میں ایک صہیونسٹی حکومت کا وجود میں آنا ایک تیس سالہ سازش کا ماحصل تھا جس میں روس، امریکا اور انگلستان کے سیاستدانوں نے ،جو اس سازش کے اہم ترین عامل اور کارگزار تھے حصہ لیا اور جس کا ایک نتیجہ عثمانی سلطنت کا سقوط اور عالم اسلام کے مختلف حصوں میں نسلی، لسانی اختلافات پیدا کرکے اپنے لیے ایک مستقر اور دستاویز کا تیار کرنا تھا۔  

تحریر : مرتضیٰ صاحب فصول