• صارفین کی تعداد :
  • 1010
  • 4/13/2010
  • تاريخ :

قطیف کے امام جمعہ:  سنی ـ شیعہ پرامن بقائے باہمی کا منشور تیار کرلیا گیا ہے

شیخ حسن الصفار
حجت الاسلام و المسلمین شیخ حسن الصفار نے کہا: یہ منشور مختلف اسلامی مذاہب کو تسلیم کرنے اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں پر تہمت لگانے یا ان کی تکفیر کی ممانعت پر مشتمل ہے۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق الشرقیہ کے شہر القطیف کے امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین شیخ حسن الصفار نے سعودی عرب میں مذہبی پرامن بقائے باہمی کے منشور ـ جو شیعہ اور سنی علماء کے درمیان تدوین ہورہا ہے ـ کے بارے میں کہا: باہمی احترام اور علماء و مقدسات کی توہین سے پرہیز، ہموطنوں کے درمیان عدل و مساوات کی رعایت اور امتیازی رویوں کے خاتمی، قومی اور اسلامی مفادات کی خاطر تعاون اور ہموطنوں کو باہمی تعلقات کے فروغ کی تلقین و ترغیب اور آپس کی غلط فہمیوں کے ازالے کی ضرورت اس منشور کے نکات میں شامل ہیں۔

انھوں نے کہا: اس منشور کے بارے میں گفتگو اور مذاکرات کا سلسلہ بدستور جاری ہے لیکن بعض علاقائی حوادث و واقعات مذاکرات کو متأثر کردیتے ہیں۔

شیخ حسن الصفار نے منشور کے حوالے سے کبارالعلماء بورڈ کے رد عمل سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا: شیعہ علماء دیگر سنی علماء کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ کیا سنی علماء، کبارالعلماء بورڈ کو ان مذاکرات کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہیں یا نہیں۔

قطیف کے امام جمعہ نے کہا: سعودی عوام قومی مذاکرات سے محبت کرتے ہیں اور وہ ملک کی وحدت و استحکام پر منتج ہونے والے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں اور اس حقیقت کا اعتدال پسند علماء اور دانشوروں کی کتب اور مضامین میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا: اس منشور کے راستے میں سب سے اہم رکاوٹ یہ ہے کہ عوام بعض انتہاپسندوں کی تقاریر اور بعض سنی اور شیعہ ٹی وی چینلز کے پروگراموں سے متأثر ہوجاتے ہیں۔ یہ انتہا پسند افراد اور بعض ٹی وی چینلز لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکا دیتے ہیں اور قومی اتحاد کی راہ میں رکاوٹیں حائل کردیتے ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت کے بعض گروپ مسلمانوں کی تقریب واتحاد کے قیام کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

شیخ حسن الصفار نے کہا: پرامن بقائے باہمی کو عملی جامہ پہنانا اور مذہبی مقدسات کی توہین کا سد باب کرنا، محض مذہبی پرامن بقائے باہمی منشور کے سانچے میں ممکن نہیں ہے اور پرامن بقائے باہمی کے بحران کا خاتمہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ حکومت نہایت مضبوط اور مستحکم قوانین مرتب اور نافذ کرے اور جاری کوششوں کا مقصد بھی حکومت کو ان قوانین کی تیاری کی ترغیب دلانا اور عوام کو پرامن بقائے باہمی کے لئے تیار کرنا ہے اور شیعہ اور سنی عوام کو تیار رہنا چاہئے تا کہ وہ کسی بھی عنوان سے ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کی پالیسی پر نظر ثانی کریں اور اس طرح سے مسلمانوں کی وحدت کی راہ میں اہم قدم اٹھائے جاسکیں.

انھوں نے کہا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے دباؤ کے باعث بعض عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی جانب قدم اٹھائے ہیں اور اس میں شک نہیں ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے عرب ممالک پر شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے تا کہ وہ صہیونی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کریں اور بعض عرب ممالک کو امریکہ کی مالی اور فوجی امداد کی ضرورت ہے جس کی بنا پر وہ اس دباؤ کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مسلم قومیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی مخالفت کرتے ہیں اور لبنان و فلسطین میں اسلامی مزاحمت اور اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کی طرف سے اسلامی مزاحمت کی حمایت، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام میں اہم رکاوٹ ہے۔