• صارفین کی تعداد :
  • 842
  • 4/6/2010
  • تاريخ :

الازہر کے نئے شیخ الجامعہ کے تضادات

شیخ احمدالطیب

 تشیع کے بارے میں نئے شیخ الازہر کے موقف میں تضادات

شیخ احمدالطیب نے گذشتہ ہفتہ کہا تھا کہ وہ جامعۃ الازہر میں سنی اور شیعہ طلبہ کا استقبال کرتے ہیں مگر تھوڑے ہی دن گذرنے کے بعد "نہ جانے کیوں؟" ان کا کہنا تھا کہ الازہر پوری اسلامی دنیا میں تشیع کے فروغ کی ہرکوشش کا مقابلہ کرے گا۔

 ابنا کی رپورٹ کے مطابق محمد سید الطنظاوی مرحوم کے بعد نئے شیخ الازہر نے اپنی تقرری کے بعد کہا تھا کہ ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان گفتگو الازہر کے مستقبل کے منصوبوں میں ترجیحی اہمیت رکھتی ہے  "اعتدال اور میانہ روی کی تہذیب کا فروغ اس عظیم اسلامی مرکز کی تأسیس کے اہداف و مقاصد میں سے ہے اور شیعہ اور سنی طلبہ اس اسلامی مرکز میں اسی پالیسی کے تحت اسلامی تعلیمات حاصل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ دین اسلام محبت اور مسامحت کا دین ہے لہذا وہ ہر قسم کے افراط اور انتہاپسندی کے خلاف ہیں۔

لیکن کچھ ہی دن کے بعد شیخ الازہر گویا اپنا یہ موقف کلی طور بھول گئے یا پھر شیعہ مخالف نیٹ ورکس نے اپنے ہاتھ کا کمال دکھایا ہے ـ تاہم انتہاپسندوں کا دباؤ زیادہ مشہود اور زیادہ ممکن ہے۔ انھوں نے سعودی عرب کے انتہا پسند وہابی حلقوں سے وابستہ العربیہ ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: الازہر مذہب تشیع کے فروغ کی ہر کوشش کا پورے عالم اسلام میں مقابلہ کرے گا!!!

تاہم شیخ الازہر کو نیا منصب جو ملا ہے اس کی وجہ سے شاید وہ ماحول زدگی کا شکار ہوگئے ہیں یا پھر جذباتیت غالب آئی ہے چنانچہ وہ الازہر کی چوٹی پر بیٹھ کر اچانک اپنے آپ کو مسلمانان عالم کی فکر و سوچ کا فعال ما یشاء اور مختار مطلق اور مالک بلا منازع سمجھنے لگے ہیں چنانچہ انھوں نے دعوی کیا ہے کہ "جس طرح کہ ایران نے اپنے ملک میں سنی مذہب کے فروغ کا راستہ روکا الازہر بھی ہر اسلامی ملک میں تشیع کے فروغ کا راستہ روکے گا اور سنیوں کے درمیان اہل تشیع کی موجودگی کا مقابلہ کرے گا۔

لگتا ہے کہ شیخ الطیب بھی تنگ نظر مشیروں کے نرغے میں گرفتار ہوگئے ہیں ورنہ انہیں یہ حقیقت ضرور معلوم ہوگی کہ ایران میں آج بھی سنی مذہب کی تبلیغ ہوتی ہے اور اہل سنت کو اپنی اذان دینے، مساجد و مدارس قائم کرنے اور جمعہ و جماعت بپاکرنے کی مکمل آزادی ہے نیز ایران کے شیعہ حوزات علمیہ میں دنیا جہان کے سنی طلبہ کو حصول علم کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ سنیوں کو ایران میں سماجی اور دینی و مذہبی آزادی حاصل ہے اور پارلیمان اور مجلس خبرگان میں سنیوں کے اپنے نمائندے ہیں اور انہیں ہر قسم کی معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کی اجازت ہے جبکہ مصر، سعودی عرب اور اردن جیسے ممالک میں اہل تشیع محروم ترین طبقہ سمجھے جاتے ہیں جو سماجی حقوق سے محروم ہیں اور انہیں سرکاری اداروں میں بھرتی نہیں کیا جاتا اور بحرین کے شیعہ اکثریتی ملک میں اقلیتی حکومت کی بات بھی تو شیخ الازہر جیسے بلند مرتبہ شخصیت سے محفی نہیں ہوگی!

نیز شیخ الازہر نے دعوی کیا ہے کہ وہ ایران میں بہت سے شیعہ علماء کے ساتھ سنی ممالک میں شیعہ تبلیغات نہ کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے پر پہنچے ہیں۔ گو کہ ان کے اس دعوے کی تصدیق ابھی تک نہیں ہوسکی ہے۔

الازہر دنیائے اسلام میں اعتدال اور منورالفکری کے حوالے سے معروف و مشہور ہے لیکن شیخ الازہر کی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کسی کو اپنے مذہب کی تبلیغ سے کیونکر روکا جاسکتا ہے؟ اور اگر کوئی مذہب ان کے خیال میں صحیح بنیادوں پر استوار نہیں ہے تو وہ مسلمانوں کو اس مذہب کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟ یا پھر اپنے ہم مکتب لوگوں کی مذہبی اور اعتقادی بنیادیں مضبوط کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟

الطیب نے"مصر میں شیعہ طلبہ کے تمام سیاسی پروگراموں" کو ناکام بنانے پر زور دیا اور کہا: ہم نہیں چاہتے کہ شیعہ طلبہ کے پروگرام سنی طلبہ کو شیعہ بنانے کے لئے جال کی حیثیت سے استعمال کئے جائیں اور پھر ایک مرکز بن جائے اور آخر کا ایک شیعہ سوسائٹی معرض وجود میں آئے۔ جس کے بعد جنگ جھگڑوں کا خطرہ رونما ہوگا!!!۔

یہ بات البتہ خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ شیخ صاحب کو اپنے طالبعلموں کے علم و شعور پر یقین حاصل نہیں ہے اور ان کی جگہ سوچنے اور ان کی طرف سے فیصلہ کرنے کا حق اپنے لئے مختص کئے بیٹھے ہیں جبکہ اس زمانے میں لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں خود سوچنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور پھر تہذیبوں کی گفتگو سے شیخ صاحب کا مطلب کیا ہے؟ کیا گفتگو میں صرف ایک ہی فریق کو بولنے کا حق ہوگا؟ کیا دنیا میں کوئی بھی اس پوزیشن میں ہے کہ اپنی بات سنائے اور منوائے اور فریق مقابل بھی خاموشی سے سب کچھ سن کر اور مان کر چلاجائے؟ گفتگو کا مطلب کیا ہے؟

قابل ذکر ہے کہ شیخ الازہر کی باتیں بڑی حد تک شیخ القرضاوی کی باتوں سے ملتی جلتی ہیں اور چونکہ شیخ القرضاوی حال ہی میں مسلم علماء ایسوسی ایشن کی صدارت سے اپنے اسی موقف کی بنا پر برطرف کردیئے گئے ہیں تو وہ اس وقت فارغ ہیں اور شاید ان کی شیخ الازہر کے ساتھ "دوستانہ ملاقاتیں" بھی ہوئی ہونگی۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ اتنے بڑے منصب پر فائز ہوکر ایسی بات کیونکر کررہے ہیں؟ یہ بات ایک بڑے عالم کے لئے مناسب نہیں ہے!!

انھوں نے اسی اثناء میں اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذاہب کی درمیان تقریب و وحدت کے لئے تحریک کا آغاز شیخ محمود شلتوت نے کیا ہے اور وہ بھی اس تحریک کو جاری رکھیں گے۔

کیا خوب ہوتا کہ شیخ صاحب سنی اور شیعہ طالبعلموں کے درمیان کانفرنسیں اور مباحثے کراتے یا شیعہ طالبعلموں کو سنی تعلیمات سے اور سنی طالبعلموں کو شیعہ تعلیمات سے روشناس کرانے کی تجویز پیش کرتے اور انہیں خود سوچنے اور سمجھنے کا حق ہی نہیں رغبت بھی دیتے یا کم از کم یہ موقف نہ اپناتے تو کیا یہ ان کے لئے زیادہ بہتر نہ ہوتا؟

دنیا آج حقیقت کی پیاسی ہے اور حقیقت کو کسی بھی مقام پر اور کسی بھی وقت حاصل کرنے کی سہولیات سے لیس ہے تو ایسے میں مسلم اقوام کے لئے ذمہ داریوں کا تعین ـ اور وہ بھی تحقیق کے سلسلے میں ـ زیادہ مناسب نہیں ہے اور شیخ صاحب کی یہ بات وسیع سطح پر خیرمقدم کا سامنا نہ کرسکے گی۔

ہاں لیکن ایک بات ہے کہ مصر کے تا حیات صدر حسنی مبارک ایک فوجی ہیں جن کی پوری تعلیم اور جمال عبدالناصر کے ساتھ رہنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ انھوں نے صہیونی ریاست کی خوشنودی کی خاطر غزہ کے ساتھ مصری سرحد پر فولادی دیوار  کھڑی کی ہوئی ہے تا کہ غزہ کے 15 لاکھ مسلمانوں کو آب و دانہ نہ پہنچنے پائے؛ آپ کہتے ہیں کہ اس بات کا شیخ الازہر صاحب سے کیا تعلق؟ تو عرض کرتے ہیں کہ شیخ الازہر کا تقرر حسنی مبارک صاحب کرتے ہیں وہی جن کی پوری ہمت صرف اور صرف اسرائیل کی خوشنودی کا حصول ہے۔

چنانچہ شیخ الازہر کا منصب علمی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔ سابقہ شیخ الازہر نے فولادی دیوار بنانے کے مصری ستم کی حمایت کی تھی اور صہیونی صدر سے ملاقات کا شرف حاصل کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں سنی اور شیعہ مسلمانوں کے احتجاج کا سامنا بھی تھا چنانچہ موجودہ شیخ صاحب سے بھی کم ہی خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔