بهمن ماہ میں ہونے والی انقلابی سرگرمیاں (حصّہ اوّل)
2 بہمن 1357 ہجری شمسی کو شاہی حکومت کے خلاف ایران کی مسلمان قوم کا احتجاج جاری رہنے کی وجہ سے شاہ کی فوج اورعوام کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں بہت سے لوگ شہید اور زخمی ہوگئے ۔ ایرانی قوم بڑی بے صبری کے ساتھ حضرت امام خمینی (رح) کی ایران آمد کی منتظر تھی اور وہ اپنے محبوب قائد کے زبردست استقبال کی مکمل تیاریاں بھی کرچکی تھی ۔ اسی سلسلے میں علماء اور عوامی نمائندوں کا ایک مشترکہ مرکز تشکیل پایا تا کہ امام خمینی ( رح) کا عظیم الشان استقبال کیا جا سکے بہت سے لوگ دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے تہران پہنچنے میں کامیاب ہوئے تا کہ استقبال میں شامل ہوسکیں ۔ دوسری طرف لوگوں کے وسیع مظاہروں کے بعد ائیرفورس کے 40 ہزار افسروں اور جوانوں نے بھی ایران کی مجاہد قوم کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کردی اور امریکی نمائندوں کو ایران سے نکالنے کا مطالبہ کیا ۔
3 بہمن 1357 ہجری شمسی کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے موقع پر ممکنہ افراتفری کو روکنے کے لئے ایک مرکزي کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس کمیٹی نے لوگوں کو اسلامی انقلاب کی کامیابی تک تحریک کو جاری رکھنے کی دعوت دی ۔ اسی روز مذہبی شہر قم فوجیوں اور پولیس سے خالی ہوگیا اور شہر پر لوگوں کا قبضہ ہوگیا ۔ یہ چیز ایران کی تاریخ میں ایک عظیم تحریک کا پیغام لائی یوں پہلوی حکومت کی بنیادیں پوری طرح متزلزل ہوگئیں اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عنقریب ایران پہنچنے کی خبر ملنے سے ایران کی مسلمان قوم کو پہلے سے زیادہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کا یقین ہوگیا ۔
4 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پیرس سے ایران واپسی کی خبر شائع ہونے کے بعد شاہی حکومت کے وزير اعظم شاپور بختیار نے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو بند کرنے کا حکم دے دیا تا کہ بزعم خود بانی انقلاب اسلامی کا ملک میں داخلہ روکا جا سکے لیکن امام خمینی (رح) کا بے صبری اور بے چینی سے انتظار کرنے والے عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری اور شہید ڈاکٹر بہشتی جیسی انقلابی شخصیات نے ہوائی اڈوں کو بند کرنے کے خلاف تہران یونیورسٹی کی مسجد میں دھرنا دے دیا ۔ عوام نے بھی سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرنا شروع کردیئے اور حکومت سے ہوائی اڈوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا جس کے باعث چند روز بعد حکومت ہوائی اڈوں کوکھولنے پر مجبور ہوگئی ۔
5 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو شاہی حکومت کی طرف سے ایران کے اکثر علاقوں میں دو سے زیادہ افراد کا اکٹھا ہونا ممنوع قرار دے دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود ایران کے عوام کے مختلف طبقوں نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے جو ایران کی خود مختاری ، آزادی اور اسلامی جمہوریہ سے عبارت تھے شاہی حکومت کے خلاف مظاہرے جاری رکھے اور حکومت کے کارندے مختلف ہتھکنڈے آزمانے کے باوجود عوام کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے تھے ۔ شاہ کی حکومت کے کارندوں کے ہاتھوں عوام کے ساتھ تشدد کی کاروائیوں کی وجہ سے مختلف شہروں میں عوام کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی ۔ اسی دن قضائیہ کے افسروں اور سپاہیوں نے شاہ کی جابر حکومت کے خلاف مظاہرے کئے اور امام خمینی (رح) کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کیا ۔ ان لوگوں نے اپنے مظاہرے کے اختتام پر ایک قرارداد منظور کرکے شاہ کی حکومت کے جرائم کی مذمت کی اور انقلاب اسلامی کی راہ میں قربانی دینے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ۔
7 بہمن سن 1357 ہجری شمسی کو شاہی حکومت کے آخری وزير اعظم شاپور بختیار کی حکومت کی طرف سے امام خمینی (رح) کی ایران واپسی پر پابندی لگائے جانے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے علماء کی ایک بڑی تعداد نے تہران یونیورسٹی کی مسجد کے صحن میں دھرنا دیا اور اپنے دھرنے کو ختم کرنے کی شرط امام خمینی (رح) کی ایران واپسی قرار دیا ۔یہ دھرنا انقلاب اسلامی کے حق میں فیصلہ کن اقدامات میں شمار ہوتا ہے ۔بختیار حکومت ایک طرف ، امریکہ کے اشاروں پر امام خمینی (رح) کی ایران واپسی کو روکنا چاہتی تھی اور دوسری طرف ، جھوٹے وعدوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتی تھی ۔علماء کے دھرنے کی وجہ سے جس میں ایران کی جانی پہچانی ، مجاہد شخصیتیں جیسے شہید بہشتی اور شہید مطہری بھی شامل تھے ، انقلابی مجاہدین کے اکٹھا ہونے اور ان کی ہدایت اور رہبری کا ایک مرکز وجود میں آگیا ۔ اس دھرنے کی وجہ سے بختیار حکومت کی تمام سازشیں نقش بر آب ہوکر رہ گئیں کہ جس کے تحت حکومت ایران کے عوام کے اسلامی انقلاب کو ناکام بنانا چاہتی تھی ۔
8 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو شاہی حکومت کے آخری وزیر اعظم شاپور بختیار نے اعلان کیا کہ وہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کے لئے پیرس جائیں گے لیکن امام خمینی (رح) نے شاپور بختیار کی طرف سے پھیلائی گئی جھوٹی افواہوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ جو بات کہی گئی ہے کہ میں نے شاپور بختیار کو وزیراعظم کے عہدے کے لئے قبول کرلیا ہے بالکل جھوٹ ہے جب تک وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیتے میں ان سے ملاقات بھی نہیں کروں گا ۔اسی طرح 8 بہمن کو ہی ایرانی عوام امام خمینی (رح) کے استقبال کی تقریب کو زیادہ سے زیادہ پرشکوہ انداز میں منعقد کرنے کی غرض سے بڑی تعداد میں تہران کے ہوائی اڈے کے اطراف میں جمع ہوگئے لیکن حکومت کی طرف سے ہوائی اڈوں کی بندش کی وجہ سے آپ کو اپنی وطن واپسی چند دنوں کے لئے ملتوی کرنی پڑی
9 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو شاہی حکومت کی طرف سے امام خمینی ( رح) کی وطن واپسی پر پابندی کے خلاف تہران یونیورسٹی کی مسجد میں علما نے دھرنا دیا اس کے بعد ایران کے مسلمان عوام جوق در جوق اس مسجد کی طرف آنے لگے ۔ غم و غصے اور اشتعال سے بھرے ہوئے عوام اللہ اکبر خمینی رہبر کے نعرے لگارہے تھے اور شاہ کی ظالم حکومت کی سرنگونی اور امام خمینی (رح) کی ایران واپسی کا مطالبہ کررہے تھے ۔ شاہ کی فوجی حکومت کے کارندوں نے عوام کو منتشر کرنے کے لئے ان پر حملہ کردیا جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوگئی ۔
11 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو سابق شاہ کی مسلح افواج نے آخری فوجی پریڈ میں حصہ لیا ، جو محض ایک دکھاوا تھا ۔ یہ فوجی پریڈ عوام میں خوف و وحشت پیدا کرنے کے لئے تہران کی سڑکوں پر کی گئی تھی ۔ اس پریڈ کے دوران جس کو عوام نے ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں دی بہت سے فوجی انقلابی عوام سے آملے اور شاہ کی جابر و ظالم حکومت سے اپنی مخالفت کا اعلان کیا ۔ اس دن شاہ کی حکومت سے وابستہ بہت سے شاطر افراد جنہیں انقلاب اسلامی کی کامیابی کا یقین ہوگیا تھا ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ دوسری طرف خبررساں ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ حضرت امام خمینی (رح) تہران کے وقت کے مطابق ، رات کے ساڑھے تین بجے فرانس سے ایران کی طرف پرواز کریں گے اور بارہ بہمن کو صبح ساڑھے 9 بجے تہران پہونچ جائیں گے ۔ اس خبر کے اعلان کے بعد ایران کے عوام لاکھوں کی تعداد میں بڑے شوق و ولولے کے ساتھ اپنے رہبر کا استقبال کرنے کے لئے سڑکوں پر آگئے ۔ حالانکہ فوج نے سارے شہر میں کرفیو لگارکھا تھا لیکن اس کے باوجود عوام نے سڑکوں پر اجتماع کیا اور سڑکوں پر نکل کر عملی طور پر کرفیو کو ناکام بنادیا ۔
اردو ریڈیو تہران