ہم اور ہماری عید (حصّہ دوّم)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قربانی پیش کرنے کے اس واقعہ کواب صدیاں بیت چکی ہیں۔ تب سے لیکر آج تک انسان کافی بدل چکا ہے۔اسکے رہن سہن اور عادات و اطوار میں زمین و آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ اس کے پاس اب دولت کی فراونی ہے۔ وہ سرمایہ دار ہے۔وہ جائداد کا مالک ہے اور وہ یہ گمان کر بیٹھا ہے کہ اپنی دولت اور مال و زر کے بل بوتے پر وہ دین کو اپنے لئے آسان بنا دے گا۔ سورج طلوع ہو جاتا ہے تو اس کی شعاعوں میں شدت کم ہو تی ہے۔ نصف النھار تک پہنچتے پہنچتے اس کی تپش اور تمازت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ انسان کے لئے نا قابل بر داشت بن جاتی ہے۔مگر آہستہ آہستہ سورج ڈھلنے لگتا ہے اور اسکی شعاعوں میں ترچھاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔اس کی وہ شعلہ فشاں کرنیں سست پڑ جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ بادلوں اور فلک بوس کوہساروں کی اوٹ میں غائب ہو جاتا ہے۔اسی طرح انسان بھی پیغمبروں اور اولیاء کی قربت میں رہ کر ایمان کی دولت سے مالا مال تھا مگر آہستہ آہستہ ڈھلتے سورج کی طرح وہ ایمانی دیوالیہ پن کا شکار ہوتا گیا۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ اس نے اپنے رہن سہن میں نامعقول تبدیلیاں لائیں۔ اگر تحقیق کی جائے تو اس حقیقت سے پردہ اٹھ جائے گا کہ مذہب کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس کو انسان کی ذہنی اختراع نے متاثر نہ کیا ہو۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہر بدعت کو ہم مذہبی رنگ دینے کی حماقت بھی کرتے ہیں۔ ہم عید منا رہے ہیں۔ یقیناً یہ خوشی اور شادمانی کا موقع ہے مگر خوشی یا جشن منانے کا ہمارے پاس ایک احسن طریقہ موجود ہے۔ عید کے پر مسرت موقع پرجس طریقے سے ہم جشن مناتے ہیں وہ ہم نے نہ جانے کہاں سے اپنا لیا ہے۔ پٹاخوں اور آتش بازیوں کا نام ہم نے عید رکھا ہے۔ بچوں کے اندر غلط کارانہ خصائل پیدا کرنے کی خاطر ہم اپنی جیبیں لٹا دیتے ہیں۔ بچے اپنی جگہ اور بچوں کی ضد بھی اپنی جگہ مگر کیا یہ ہماری اخلاقی ذمہ دا ری نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ بات ذہن نشین کرا لیں کہ پٹاخے پھوڑنا اور آتش بازیوں سے کھیلنا تو ہندوؤں کی رسم ہے ہم کیوں اپنی متبرک عید کو اسے داغدار کریں۔ آج عید کے اس مبارک موقع پر اگر ہم اپنے گریباں میں جھانک کر اور اپنے من کو ٹٹول کر یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ عید الاضحیٰ کے حوالے سے پیش کی جا رہی جانوروں کی قربانیاں کیا ہمارے لئے باعث نجات ہوں گی تو صرف مایوسی ہاتھ آئے گی۔ شاید ہم نے دین کی اصل جڑ سے جڑے نہ رہنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ہم تو دین کو چبھاتے چیونگم کی طرح اپنی مرضی کے مطابق کھینچ کر لمبا یا چھوٹا کرتے ہیں۔ کوئی مذہبی رسم نبھانے کی نوبت آتی ہے تو ہم دنیوی نمود و نمائش کے حوالے سے کہاں پیچھے رہنے والے ہیں۔ نکاح کی مجلس ہو تو اظہارِ محبت کے بجائے دولت کی نمائش کی جاتی ہے۔ایام تعزیت ہوں تو ہمدردی اور غمگساری کے بجائے دولت بانٹی جاتی ہے۔
تحریر : صابر حسین ایثار ( کشمیر عظمی ڈاٹ نیٹ )
متعلقہ تحریریں:
قربانى كرنا
كنكرياں مارنا