• صارفین کی تعداد :
  • 2933
  • 11/23/2009
  • تاريخ :

ہم اور ہماری عید

عید قربان

خدا وند تعالیٰ بھی اپنے بندے کے ساتھ کتنی محبت کرتا ہے۔اسے اسکی فکر کس قدر ستاتی ہے کہ اس کو زمین پر بسانے سے پہلے روئے زمین کو گونا گوں نعمتوں اوردلکش مناظر سے مالا مال کر دیا۔ اللہ عزوجل نے یہیں بس نہیں کیا بلکہ اسکی شخصیت میں اخلاقی و روحانی نکھار لانے کی غرض سے وقت وقت پر وہ اپنے نبی اور رسول بھیجتا رہا تا کہ اس کے بندے رشد و ہدایت کا خزینہ پا سکیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام  بھی ان نامی گرامی پیغمبروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے پہنچاتے بے شمار قربانیاں پیش کیں۔ آج جو ہم عید قربان منا رہے ہیں ہم انہی کی سنت کی تقلید کر رہے ہیں ۔ عید کے موقعے پر جانوروں کی قربانی پیش کرکے ہم اصل میں اس بات کا عہد دہراتے ہیں کہ ہم اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا کی خاطر کسی بھی قربانی کے لئے تیار ہیں۔ ہاں بالکل صحیح ہے کہ10ذی الحجہ ایک ایسا مبارک دن ہے جو ایثار و قربانی کے جذبے سے ہمارے وجود کو سر شار کر دیتا ہے۔ ہمارے اندر اللہ کی خوشنودی کی خاطرمر مٹنے کا جنون بھر دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ملا تو جوان بیٹے کی قد و قامت،اسکی خوبروئی اور اسکی محبت پر اللہ کی رضا غالب آ گئی۔ خود اپنے بیٹے کے ہاتھ پاؤں رسیوں میں جکڑ لئے اور اللہ کے تئیں عقیدت بھری محبت کا اظہار کرتے ہوئے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام  کے حلق پر چھری چلا دی۔اللہ کو ابراہیم سے امتحان لینا مقصود تھا اور وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔جس طرح نار نمرود ابراہیم علیہ السلام  کو جلا نہ سکی اسی طرح اللہ کے حکم سے اسمٰعیل علیہ السلام  کے گلے پر چل رہی چھری اس کے جسم سے لہو کا ایک قطرہ بھی بہا نہ سکی۔جنت سے جانور منگایا گیا جسے حضرت اسمٰعیل کی جگہ ذبح کرکے خون بہایا گیا۔ تب سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ امت مسلمہ کے فرزند ہر سال 10ذی الحجہ کو کسی جانور کی قربانی پیش کرکے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام  کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ یہ پست حوصلہ تیرا کیا ساتھ دیں گے ادھر آ زندگی تجھے ہم جی لیں گے _

تحریر :  صابر حسین ایثار ( کشمیر عظمی ڈاٹ نیٹ )


متعلقہ تحریریں:

تين جمرات كو كنكرياں مارنا

منى ميں رات گزارنا