امریکہ کا خود ساختہ زخم (حصّہ سوّم)
نیو میکسیکو انسٹی ٹیوٹ آف مائننگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک مشہور ایکسپرٹ مسٹر وین رومیو نے کہا کہ جڑواں ٹاوروں کا گرنا جہاز کے ٹکرانے سے نہیں، عمارت کے اندر کسی دھماکہ خیز مواد کے استعمال کے نتیجے ہی میں ہوسکتا تھا (تاہم بعد میں بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے پیش نظر انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا)-
نائن الیون کے واقعات کو ایک یونانی سینیٹر Yoki Hissa Fojita نے بھی چیلنج کیا اور اس بارے میں امریکہ کے سرکاری موقف کو جھٹلایا ۔ متذکرہ سینیٹر کی جماعت جاپان میں حزب اختلاف کی ایک ممتاز سیاسی جماعت ہے۔
نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکہ کے دو صحافیوںJohn SpamtonاورWayne Madsomنے جو بیان دیا اس کا ترجمہ یہ ہے ”تاریخ اس امر کی گواہی دے گی کہ نومبر2000اور فروری 2002 کے درمیان اس جمہوریت کی موت واقع ہوگئی جس کا خواب” اعلان آزادی“ اور امریکہ کے آئین کی بنیاد رکھنے والے بڑوں نے رکھا تھا۔ جمہوریت کی اس موت نے امریکہ میں ایک فاشسٹ مذہبی حکومت کو جنم دیا ہے۔(نائن الیون کے مقاصد میں سے ایک مقصد غالباً یہ بھی تھا)۔
ملٹن بیرڈنMilton Beardenجو اسی کی دہائی میں سوڈان میں سی آئی اے کے سر براہ تھے اور افغانستان میں بھی خفیہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے تھے کہتے ہیں کہ”سوویت یونین کے زوال کے بعد ہمارا کوئی قومی دشمن نہیں تھا۔ ہمیں یہ بین الاقوامی دہشت گردی کا چکر اچھا لگتا ہے ، ستم ظریفی یہ ہے کہ حقیقی دہشت گردی اپنی نوعیت تبدیل کررہی ہے۔
افغانستان پر حملے سے پیشتر دور9/11سے بھی پہلے اومان کے قریب برطانوی بحری بیڑے کو مضبوط کیا گیا اور نیٹو نے چالیس ہزار فوجی مصر میں تعینات کئے(فاک لینڈکی جنگ کے بعد برطانوی بحری بیڑے کی یہ سب سے بڑی توسیع تھی) اور یوں ایک نئی استعماری جنگ کے لئے راستہ ہموار کیا گیا۔
تھیری نے 9/11کے سانحے کا تجزیہ کرنے کے بعد اس کا نچوڑ یہ بیان کیا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ امریکہ کا اپنا ایک خود ساختہ زخم تھا جس کی پلاننگ بہت پہلے کی جا چکی تھی۔ مذکورہ مصنف کے علاوہ مغرب میں بہت سی کتابیں، مضامین اور دستاویزی فلمیں منظر عام پر آئی ہیں جن کا لب لباب یہی ہے جو تھیری میسن نے اپنی کتاب ”ایک عظیم جھوٹ“ میں بیان کیا ہے اور یوں سب نے امریکہ کے سرکاری موقف کو رد کرتے ہوئے القاعدہ کو اس الزام سے بری قرار دیا ہے۔ مغرب میں کسی معمولی سے حادثے کی ذمہ داری اس ادار ے کا سربراہ قبول کرکے اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتا ہے یا اس سے استعفیٰ طلب کر لیا جاتا ہے لیکن سکیورٹی نظام کی اتنی بڑی ناکامی پر کسی کی باز پرس نہیں کی گئی اور نہ کوئی استعفیٰ سامنے آیا بلکہ سی آئی اے کے سربراہ کی تنخواہ میں 42 فیصد اضافہ کر دیا گیا۔
میں یہ سطور لکھ رہا تھا کہ انور حسین مجاہد کا ایک خط مجھے موصول ہوا جو میرے ان کالموں کے حوالے سے ہے جو 9/11کے بارے میں ”جنگ“ کی گزشتہ دو اور اس سے پہلے ایک اشاعت میں شائع ہوئے تھے ان کا کہنا ہے کہ :
”نائین الیون کے بارے میں آپ کے شبہات اور خیالات بالکل صحیح ہیں۔ بہت سے امریکی اور یورپین محقق اور دانشور بھی اس کے سرکاری موقف سے اتفاق نہیں کرتے اور اسے وسیع تر سامراجی مقاصد کے لئے ایک خود ساختہ زخم قرار دیتے ہیں ۔ اسی طرح کی ایک ”گریٹ گیم“کے تحت جس طرح عثمانی سلطنت کے ٹکڑے کئے گئے اور عربوں اور ترکوں کو آپس میں لڑایا گیا۔ آج عرب چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اسرائیل کا خنجر ان کے سینے میں پیوست ہے ۔ نئی استعماری اسکیم کے تحت امریکہ اسرائیل اور انڈیا جنوبی اور سینٹرل ایشیا پر اپنا تسلط جمانے کے لئے اتحادی بن چکے ہیں اور امریکی حکام کھلے طور پر اسے ایک نیا اسٹرٹیجک الائنس کہہ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بوجوہ اس میں امریکہ کا ذکر نہیں ہے ہمارے بعض نادان دوست صرف طالبان کے مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ اس کے پس پردہ جو ”گریٹ گیم“ کھیلی جا رہی ہے اور اس کا ایک رخ یہ ہے کہ پاکستانی فوج اور عوام کو 1971ء کی طرح مختلف محاذوں پر الجھا دیا جائے۔ اس کو نظرانداز کرنا کوتاہ نظری ہوگی۔ سیدھی سی بات ہے کہ امریکہ اور نیٹو فورسز کی افغانستان میں موجودگی افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر اور انڈیا کے لئے باعث تقویت ہے (کیونکہ اس سے پاکستان دو طرفہ دباؤ میں آ گیا ہے) جب تک یہ غیرملکی افواج افغانستان میں موجود رہیں گی۔ افغانستان اور پاکستان میں امن نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے بھی وسیع تر استعماری مقاصد کے حصول کے لئے مغربی طاقتوں نے خود ساختہ زخم لگائے ہیں صرف یکطرفہ پروپیگنڈہ سے کوئی چیز حقیقت نہیں بن جاتی۔ 9/11کے بعد چار ہزار لوگوں کا بدلہ لینے کے لئے اب تک افغانستان اور عراق میں گیارہ لاکھ سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو قتل اور تقریباً چالیس لاکھ لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا ہے۔ نہ جانے ہمارے محترم ساتھی مظلوم انسانوں کے لئے آواز اٹھانے کی بجائے استعماری طاقتوں کے سرکاری موقف کے ترجمان کیوں بنے ہوئے ہیں“۔ انور حسین مجاہد کا کہنا ہے کہ ”ہمارے محترم دوست کو ان امور پر غور کرنا چاہئے 1994ء کے لگ بھگ (نائن الیون سے کئی سال پہلے)"Clash of Civilzations"کے تحت Smuel P.Huntington نے تہذیبوں کے تصادم پر اپنی کتابوں میں اسلامی اور چینی تہذیب کو مغربی تہذیب کے لئے Potential Threatکے طور پر پیش کیا۔ یہ گویا آنے والے حالات کی پیش بندی تھی۔ جس پر بعد میں Neocons نے عمل کیا۔
تحریر : عطاالحق قاسمی ( روزنامہ جنگ )
متعلقہ تحریریں:
امام خمینی کی نظر میں اتحاد
امریکہ اورعراق کا استعماری معاہدہ
نئی جنگ سرد کے آغاز میں سرمایہ داری بمقابلہ شیعہ اسلام