• صارفین کی تعداد :
  • 3059
  • 8/29/2009
  • تاريخ :

انسانی زندگی پر قیامت کا اثر ( حصّہ دوّم )

 قیامت

لیکن قیامت پرایمان نہ رکھنے والے اور خدا کی بارگاہ میں حاضر ھونے کا عقیدہ نہ رکھنے والے لوگ اسی دنیاوی زندگی پر خوشحال ، اور مطمئن ھیں اور اسی پر بھروسہ کئے ھوئے ھیں، جس سے ان کی رغبتوں میں اضافہ ھوتا رہتا ھے، اور ھوائے نفس ان پر اور ان کی ذات پر غلبہ کرلیتی ھے جس سے ان کے نفوس تباہ و برباد ھو جاتے ھیں،اس وقت یہ لوگ خود کو دنیاوی برائیوں کے دلدل میں پھنسا ھوا دیکھتے ھیں۔ کیونکہ یہ لوگ سعادت اور اپنی زندگی کا عیش و آرام اور مرنے سے پہلے بہت سی آرزوٴں کو حاصل کرنا چاہتے ھیں، ان کے عقیدہ کے مطابق عالم موتفنا ھوجانا ھے۔

اسی وجہ سے آپ حضرات ان کو مضطرب اور پریشان دیکھتے ھیں، وہ ڈرتے ھیں کہ کھیں مرنے سے پہلے ھی ان کا رزق ختم نہ ھوجائے،مرنے سے پہلے آسائش و سکون کے اسباب نہ حاصل کرپائیں، وہ زندگی میں تھوڑی سی تکلیف سے پریشان ھوجاتے ھیں، اور ظاہری مال و دولت اور چین و سکون کے وسائل حاصل نہ کرنے پر اپنے نفس کی ملامت کرتے ھیں ان کی نظر میں یہ دنیا تاریک بن جاتی ھے یعنی اس کا مقصد معلوم نھیں ھو پاتا، اسی وجہ سے کبھی کبھی اس غم سے نجات حاصل کرنے کے لئے خودکشی کر لیتے ھیں، یہ لوگ درحقیقت اندھے ھیں، جو کچھ بھی نھیں دیکھ پاتے ھیں، دنیا نے ان کوحق و حقیقت اور خیر و کمال کو دیکھنے سے اندھا کردیا ھے۔

حضرت امیرالموٴمنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”انما الدنیا منتھیٰ بصر الاعمی ،لا یبصرمما و راء ھا شیئا، والبصیر ینفذھا بصرہ ،ویعلم ان الدار وراء ھا فالبصیر منھا شاخص، والاعمی الیھا شاخص ،والبصیر منھا متزود والاعمی لھا متزوّد“۔[1]

”یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ھے جو اس کے ماوراء کچھ نھیں دیکھتا ھے جبکہ صاحب بصیرت کی نگاہ اُس پار نکل جاتی ھے اور وہ جانتا ھے کہ منزل اس کے ماوراء ھے، صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ھے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ھے، بصیر اس سے زاد راہ فراھم کرنے والا ھے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھا کرنے والا ھے“۔

لیکن اس کے برعکس ایک مرد مومن کا عقیدہ یہ ھوتا ھے اوراس کا نفس اس بات پر مطمئن ھوتا ھے کہ سعادت و خوشبختی اس دنیا اور اس کے محدود مال و متاع میں خلاصہ نھیں ھوتی کیونکہ اس کے عقیدہ کے مطابق جو چیز خدا کے پاس ھے وہ خیر کثیر اور باقی رہنے والی سعادت ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

<وَمَا اٴُوتِیتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَزِینَتُہَا وَمَا عِنْدَ اللهِ خَیْرٌ وَاٴَبْقَی> [2]

”اور تم لوگوں کو جو کچھ عطا ھوا ھے تووہ دنیا کی (ذراسی)زندگی کا فائدہ اور اسی کی آرائش ھے اور جو کچھ خدا کے پاس ھے وہ اس سے کھیں بہتر اور پائیدار ھے “۔

لہٰذا وہ دنیاوی مشکلات و مصائب کے سامنے مضطرب اور پریشان نھیں ھوتا، حوادث کے سامنے سر نھیں جھکاتا، اضطراب و پریشانی کے موقع پر چیخ و پکار نھیں کرتا،بلکہ اپنے نفس کو صبر کی تلقین کرتا ھے، موت کا تذکرہ کرتا ھے، خداوندعالم کی بارگاہ میں حاضرھونے کی جاودانہ سعادت کی امید رکھتا ھے، جیسا کہ حضرت امیرالموٴمنین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ھے:

”اکثروا ذکر الموت ویوم خروجکم من القبور ،وقیامکم بین یدی اللہ تعالی ،تھون علیکم المصائب“۔[3]

” اکثر اوقات موت کا ذکر اور قبر سے نکلنے کا تصور کیا کرواور خداوندعالم کے سامنے حاضری کا تصور کیا کرو تو تم پر مصائب آسان ھو جائیں گے“۔

حوالہ جات :

[1] نہج البلاغہ /صبحی الصالح :۱۹۱۔خطبہ نمبر ۔(۱۳۳)

[2] سورہٴ قصص آیت۶۰۔

[3] الخصا ل،شیخ صدوقۺ:۶۱۶۔حدیث الابعمائة۔

https://www.alimamali.com


متعلقہ تحریریں:

موت کی ماہیت

موت کے بعد کی زندگی