• صارفین کی تعداد :
  • 6915
  • 5/17/2009
  • تاريخ :

علمِ ہیئت و فلکیات (Astronomy)

علمِ ہیئت و فلکیات

علم ہیئت و فلکیات کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُنہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علمُ الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر اُستوار کیا۔ مغربی زبانوں میں اَب بھی بے شمار اَجرام سماوِی کے نام عربی میں ہیں، کیونکہ وہ مسلم ماہرینِ فلکیات کی دریافت ہیں۔

عظیم مغربی مؤرخ Prof Hitti لکھتا ہے:

Not only are most of the star ۔ ۔ ۔ names in European languages of Arabic origins ۔ ۔ ۔ but a numbers of technical terms ۔ ۔ ۔ are likewise of Arabic etymology and testify to the rich legacy of Islam to Christian Europe."

(History of the Arabs, pp.568-573)


ترجمہ: "یورپ کی زبانوں میں نہ صرف بہت سے ستاروں کے نام عربی الاصل (عربی زبان سے نکلنے والے) ہیں بلکہ لاتعداد اِصطلاحات بھی داخل کی گئی ہیں جو یورپ پر اِسلام کی بھرپور وراثت کی مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں"۔

اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابنِ رشد ۔ ۔ ۔ جسے مغرب میں Averroes کے بدلے ہوئے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ نے سورج کی سطح کے دھبوں (sun spots) کو پہچانا۔ Gregorian کیلنڈر کی اِصلاحات ’عمر خیام‘ نے مرتب کیں۔ خلیفہ مامون الرشید کے زمانہ میں زمین کے محیط کی پیمائشیں عمل میں آئیں، جن کے نتائج کی درُستگی آج کے ماہرین کے لئے بھی حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردِش، سورج گرہن، علمُ المیقات (timekeeping) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیرمعمولی سائنسی معلومات بھی البتانی اور البیرونی جیسے نامور مسلم سائنسدانوں نے فراہم کیں۔ مسلمانوں کی علمُ المیقات (timekeeping) کے میدان میں خصوصی دِلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اِس علم کا تعلق براہِ راست نمازوں اور روزوں کے معاملات سے تھا۔ یاد رہے کہ البتانی (877ء۔918ء) اور البیرونی (973ء۔1050ء) کا زمانہ صرف تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا ہے، گویا یہ کام بھی آج سے گیارہ سو سال قبل اِنجام پذیر ہوئے۔

(History of the Arabs, pp.373-378)

پنج وقتی نمازوں کے تعینِ اَوقات کی غرض سے ہر طول و عرض بلد پر واقع شہروں کے لئے مقامی ماہرینِ تقوِیم و فلکیات نے الگ الگ کیلنڈرز وضع کئے۔ رمضانُ المبارک کے روزوں نے طلوع و غروبِ آفتاب کے اَوقات کے تعین کے لئے پوری تقوِیم بنانے کی الگ سے ترغیب دی، جس سے بعداَزاں ہر طول بلد پر واقع شہر کے مطابق الگ الگ کیلنڈرز اور پھر مشترکہ تقوِیمات کو فروغ ملا۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی عیسوی میں باقاعدہ طور پر ’مؤقّت‘ کا عہدہ وُجود میں آگیا، جو ایک پیشہ ور ماہرِفلکیات ہوتا تھا۔

مغرب کے دورِ جدید کی مشاہداتی فلکیات(observational astronomy) میں اِستعمال ہونے والا لفظ almanac بھی عربی الاصل ہے اِس کی عربی اصل ’المناخ‘ (موسم) ہے۔ یہ نظام بھی اصلاًمسلم سائنسدانوں نے اِیجاد کیا تھا۔

’شیخ عبدالرحمن الصوفی ‘ نے اِس موضوع پر ایک عظیم کتاب ’صورُالکواکب‘       (figures of the stars) کے نام سے تصنیف کی تھی، جو جدید علمِ فلکیات کی بنیاد بنی۔

 مستزاد یہ کہ اِس باب میں ’ابنُ الہیثم‘۔ ۔ ۔ جسے اہلِ مغرب لاطینی زبان میں Alhazen لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش سائنسی سرمایہ ہے۔ علمِ ہیئت و فلکیات (astronomy) اور علمِ نجوم (astrology) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ ’علی بن خلاف اندلسی‘ اور ’مظفرالدین طوسی‘ کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر اُن سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ (Cordoba) کے عظیم سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دورِ جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اُس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ ’عباس بن فرناس‘ وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے دُنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اُڑایا۔  بعد اَزاں البیرونی (al-Biruni) اور ازرقیل          (Azarquiel)  و غیرہ نے equatorial instruments کو وضع کیا اور ترقی دی۔ اِسی طرح سمتِ قبلہ کے درُست تعین اور چاند اور سورج گرہن (lunar / solar eclipses ) کو قبل اَز وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردِش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی، ابنِ یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے Toledan Astronomical Tables مرتب کئے۔ چنانچہ بعض غیرمسلم مؤرخین نے اِس حقیقت کا اِن اَلفاظ میں اِعتراف کیا ہے:

"Muslim astrologers also discovered (around the thirteenth century) the system for giving the ephemerids of the sun and the moon --- later extended to the other planets --- as a function of concrete annual dates. Such was the origin of the almanacs which were to be so widely used when trans-oceanic navigation began."

(The Legacy of Islam, pp. 474-482)


ترجمہ: "مسلمان ماہرینِ فلکیات نے بھی (تیرہویں صدی عیسوی کے قریب) چاند اور سورج کو حرکت دینے والے نظام کو دریافت کیا اور بعد ازاں دُوسرے سیاروں کے حوالے سے تحقیق شروع کی۔ طے شدہ سالانہ تاریخوں کے حساب سے اور اُن تاریخوں کا رجسٹر کا آغاز کچھ ایسا تھا کہ اسے سمندر کو پار کرنے کے لئے جہازوں کی رہنمائی میں بہت زیادہ اِستعمال میں لایا گیا"۔

تحریر : ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری


متعلقہ تحریریں:

لیپ ٹاپ کی دنیا میں نئی جدت، نوٹ بک

خود سے ملتے جلتے چہرے اپنے اپنے لگتے ہیں

مصنوعی دانت لگوانے کی بجائے، اب بڑھاپے میں بھی نئے دانت اگائے جا سکتے ہیں