جبر و اختیار کی وضاحت
ھرانسان فطری طور پر اس بات كو سمجھتا ھے كہ وہ بہت سے كاموں پر قادر ھے اور وہ جن كاموں كا ارادہ كرے ان كو انجام دے سكتا ھے اور جن كاموں كو انجام نہ دینا چاھے ان كو چھوڑ سكتا ھے اور ھمارے لحاظ سے كوئی بھی ایسا انسان نھیں هوگا جو اس بات میں شك كرے، جو اس بات كی بہترین دلیل ھے كہ انسان مكمل طور پر آزاد ھے۔
اسی طرح ھر انسان یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتا ھے كہ تمام صاحبان عقل اس بات پر متفق ھیں كہ جو شخص اچھے كام كرتا ھے اس كی مدح وتعریف كرتے ھیں اور جو شخص برے كام كرتا ھے اس كی مذمت كرتے ھیں، اور یہ بھی اس بات كی بہترین دلیل ھے كہ انسان اپنے افعال میں مكمل آزاد ھے اور (اگر اختیار نہ هو) تو صاحبان عقل كا مدح ومذمت كرنا صحیح نہ هوگا۔
اسی طرح انسان فطری طور پر اس بات كا بھی احساس كرتا ھے كہ انسان كے كسی بلندی سے سیڑھی كے ذریعہ نیچے اترنے اور بلندی سے زمین كی طرف كودنے میں فرق ھے كیونكہ انسان پھلی صورت پر قادر ھے اور دوسری صورت میں مجبور۔
اسی طرح عقل سلیم كے نزدیك یہ بات بھی مسلم ھے اور كسی كو بھی اس میں كوئی شك نھیں ھے كہ انسان میں ان طاقت وتوانائی كا خلق كرنے والا ان كو ایجاد كرنے كے بعد ان سے جدا نھیں هوا ھے، بلكہ ان چیزوں كا باقی رہنا ھر لمحہ اس موٴثر كا محتاج ھے، كیونكہ ان اشیاء كا خالق كسی معمار كی طرح نھیںھے كہ مكان بننے كے بعد مكان كو معمار كی ضرورت نھیں هوتی، بلكہ عمارت اپنی جگہ پرباقی رہتی ھے چاھے اس كابنانے والا معمار مرھی كیوں نہ هوجائے، اسی طرح كتاب جو اپنے لكھے جانے میںكاتب كی محتاج ھے، بلكہ اس كائنات اور جوكچھ اس میں موجود ھے؛ كا خالق روشنی كے لئے بجلی كی طرح ھے كہ جب تك بجلی رہتی ھے روشنی باقی رہتی ھے، اور روشنی اپنی بقاء میں ھر لمحہ بجلی كی محتاج رہتی ھے اوراگر بجلی كا تار ایك لمحہ كے لئے ہٹالیاجائے تو روشنی فوراً ختم هوجاتی ھے، بالكل اسی طرح اس كائنات كی تمام چیزیں اپنے وجود اور بقاء میں ھر لمحہ اپنے مبدع اور مصدر (خالق) كی محتاج ھیں۔
گذشتہ باتوں سے یہ بات واضح هوجاتی ھے كہ انسان كے اعمال و افعال جبر و تفویض كے درمیان هوتے ھیں، اور ان كے لئے دونوں میں حصہ هوتا ھے، لہٰذا فعل یا ترك كو انجام دینے كی طاقت اگرچہ انسان كے اختیار سے ھی هوتی ھے لیكن یہ قدرت خدا كا عطیہ ھے، اور انسان كا فعل ایك لحاظ سے خود انسان كی طرف منسوب هوتا ھے، اور ایك لحاظ سے خدا كی طرف منسوب هوتا ھے۔
قرآن كریم كی وہ آیات جن سے ”جبریوں“ نے استدلال كیا ھے وہ اس بات كی طرف اشارہ كرتی ھیں كہ انسان كا اختیار كسی كام كو انجام دینے میں خدا كی قدرت كے نافذ هونے میں مانع نھیں بن سكتا، اس كا مطلب یہ نھیں ھے كہ انسان خدا كی ذات اور اس كی قدرت سے بے نیاز هوگیا ھے؟ ! ۔
اس سلسلہ میں ھمارے استاد آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی رحمةاللہ علیہ نے اپنے درس میں ”المنزلة بین المنزلتین“ كی تفسیر كرتے هوئے درج ذیل بہترین مثال پیش كی:
”اگر كسی انسان كا ھاتھ اس طرح شَل هوجائے كہ وہ اس كو نہ چلا سكے، اور كوئی ڈاكٹر اس كے كوئی ایسا آلہ لگائے جس كی وجہ سے اس كا ھاتھ حركت كرنے لگے، اس طرح كہ جب وہ آلہ لگا هوا هو تو انسان اپنے ھاتھ كو حركت دے سكے، تو جب تك وہ آلہ لگا هوا ھے اس كا ھاتھ كام كرتا ھے اور جب اس كو الگ كردیا جائے تو اس كا ھاتھ اپنی پھلی حالت پر پلٹ جائے، تو جب اس كے وہ آلہ لگا هوا ھے اور وہ اپنے ھاتھ كو حركت دینے پر قادر ھے اور اپنے معمولی كاموں كو انجام دے رھا ھے تو اس كی یہ حركت دونوں چیزوں كی سبب هوگی ایك لحاظ سے صاحب دست كی طرف مستند ھے كیونكہ وہ اپنا ھاتھ خودچلا رھا ھے، دوسری طرف وہ حركت اس آلہ كی طرف بھی منسوب ھے كیونكہ وہ اس آلہ كے ذریعہ اپنا ھاتھ چلانے پر قادر ھے۔“
بشکریہ : صادقین ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
اسلام کا نظام عدل
امام علی معلم عدالت
امام علی (ع) کی نگاہ میں عدل کی اساسی بنیاد
عدالت تمام انسانی معاشروں کی ضرورت ھے
عدالت علوی