امام علي (ع) کي نگاہ ميں عدل کي اساسي بنياد
اس میں شک نہیں کہ ہرشخص خاص طورسے اگر وہ اقتدارکی کرسی پربیٹھا ہوعدل کا مدعی ہے لیکن ان میں سے سچا کون ہے اسکا معیار کیا ہے ؟کون عدالت پسندی کا دعوی کرسکتا ہے کہ جس کی بات حجت ہو؟عدل کا سرچشمہ کہاں سے حاصل ہوتا ہے اس کی نمود انسان کے باطن سے ہے یا اس کے وجود کے باہرسے؟
ان تمام سؤالات کا صرف ایک جواب ہے وہ یہ ہے کہ؛عدل انسان کے باطن سے نمود حاصل کرتا ہے اور اسکا سرچشمہ صرف ایمان ہے اوردوسری شاخیں یا فرعیں اسی اصل سے نکلتی ہیں امام اس سلسلے میں اپنی خلافت کے اوائل میں اپنے خطبے کے دوران ایک مختصراورجامع جملہ ارشاد فرماتے ہیں۔
(وشدّبالاخلاص والتوحیدحقوق المسلمین فی معاقدھا)(خطبہ نمبر۔١٦٧)
یعنی خداوند عالم نے مسلمانوں کے مقررہ حقوق کواخلاص و توحید کی بنیاد پراستوارکیا ہے
اورایک خطبے میں آپ متقیوں کی مدح کرتے ہوۓ فرماتے ہیں۔
(قدالذم نفسہ العدل فکان اوّل عدلہ نفی الھوی عن نفسہ )
یعنی انسان نے تقوی کے ذریعے اپنے نفس پرعدل کولازم قراردیا اوراسکی عدالت کا پہلا قدم یہ ہے کہ اس نے ہوای نفس کو اپنے آپ سے دور کیا (خطبہ۔٦٧)
ایک موقع پرجب آپ سے ایمان کی تعریف بیان کرنے کی درخواست کی گی تو آپ نے ایک قیمتی اورجامع ارشاد میں ایمان کے چاراصول شمارکیے۔صبر،یقین،عدل، جہاد،اورعدل کی وضاحت کرتے ہوۓ فرمایا کہ عدل کے چارشعبے ہیں بات کی تہوں تک پہنچنے والی فکر؛ علم کی گہرائی،بہترین اوراچھا فیصلہ اورحکم کی پائیداری ۔ ۔پس جس نے غوروفکر کی وہ علم گہرائی تک پہنچ گیا اورجوعلم کی گہرائی میں اترا وہ فیصلوں کے سرچشمے سے سیراب ہوا اورجس نے حلم اوربردباری اختیار کی اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اورلوگوں میں نیک نامی کی زندگی بسرکی ۔
اگرہم عدالت کو دوشاخوں عدالت فردی اورعدالت اجتماعی میں تقسیم کریں تو بلاشبہ عدالت فردی عدالت اجتماعی کیلئے بنیاد اوراساس قرارپائیگی،کیونکہ اگر افرادعدالت کی صفت سے آراستہ نہ ہوں گے تو معاشرے میں عدالت کیسے پائی جائیگی۔ کیا معاشرہ افراد کا مجموعہ نہیں ہے؟ اس بنا پرجبکہ افراد میں ایمان ، اخلاق اورتقوی نہ ہو تو ایسی صورت میں اجتماعی عدالت کی توقع ایک خیال خام ہے انسانی معاشرے کی مشکلیں ظالموں اور جابروں کا تسلط طبقہ بندیاں اورناانصافیاں یہیں سے ظہورکرتی ہیں ۔ سب سے پہلے انسان کوانسان بنانا چاہئے اورانسان کوانسان بنانا اسی وقت ممکن ہے جب انسان عدالت کے لباس میں ملبوس ہو اورعادل انسان کے معاشرے میں وجود آنے کے بعد معاشرے کی بھاگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں سونپنی چاہئے تاکہ عدالت کی حاکمیت اورمعاشرے میں انصاف کی توقع کی جا سکے یہ وہی چیز ہے جوامام (ع) کے کلام میں جلوہ گراور منعکس نظرآتی ہے۔
آپ ظلم اور بےعدالتی کے بارے میں جومعاشرے کی سبب سے بڑی بلا ہے فرماتے ہیں (بئس الزادالی المعادالعدوان علی العباد) آخرت کا بدترین توشہ اللہ کے بندوں پرظلم وستم ہے (باب حکمت۔٢٢١) اوردوسری جگہ فرماتے ہیں؛اگرظالم کومہلت دی جائے تب بھی وہ انتقام کے پنجے سے بچ نہیں سکتا خدا اس کی کمین اورگزرگاہ پرہے اورظلم کی سزا ہڈی کے مانند ظالم کے گلے میں پھنس جائیگی ۔
امیرالمؤمینین علیہ السلام (جس کاعدل وتقوی اس اندازمیں زبان زدعام وخاص ہے کہ جب بھی عدل اور تقوی کا تذکرہ ہوتا ہے تو بے ساختہ مولای کائنات کا تصورذہن میں آتا ہے گویاعدل اورعلی(ع) ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم بن گئے ہیں)نے عدالت پسندی اورعدل گستری کی روح کو اسی سرچشمے سے حاصل کی ہے جس کی آپ نے خود توصیف فرمائی ہے۔ آپ اپنی عدالت پسندی کی مدح کی عکاسی کرتے ہوۓ فرماتے ہیں۔ خداکی قسم اگرمجھے بیابان کے کانٹوں پرجاگتے ہوۓ رات بسرکرنا پڑے اورمجھے طوق اور زنجیر میں کھینچاجائے تو یہ میرے لئے اس سے بہترہے کہ میں خدا اوراس کے پیغمبرسے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے خدا کے بندوں کے اوپرظلم کیا ہو یا مال دنیا میں سے کوئی چیزغصب کی ہواورمیں اس نفس کی آسودگی کیلئے کسی پرکیوں ظلم کرسکتا ہوں جوفنا کی طرف پلٹنے والا ہے اورمدتوں مٹی کی تہوں میں پڑا رہےگا۔ اورپھر آگے بڑھتے ہوۓ فرماتے ہیں؛(واللہ لواعطیت الاقالیم السبعۃ بماتحت افلاکھا علی ان اعصی اللہ فی نملۃفاسلبھاجلب شعیرۃمافعلتہ وان دنیاکم۔۔۔۔۔۔)(٥) اگرمجھے ان تمام چیزوں کیساتھ جوکچھ آسمانوں کے نیچے ہے ہفت اقلیم بھی دے دیا جاۓ کہ میں صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ ایک چونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں تومیں کبھی ایسا نہیں کروں گا بلاشبہ تمھاری یہ دنیا میری نظرمیں اس پتی سے بھی زیادہ حقیراوربے قیمت ہے کہ جسے ٹڈی اپنے منہ میں رکھے ہوۓ ہیں ۔علی(ع) کودنیا کی فانی نعمت اوراس کے بے ثبات یا مٹ جانے والی لذت سے کیا واسطہ؟(خطبہ۔٢٢١)
یہ صرف ادعا نہیں ہے انہوں نے عملی طورسے یہ ثابت کردیا کہ جوکچھ فرماتے ہیں منزل عمل میں اس سے زیادہ پائبند ہیں اوراس کا منہ بولتا ثبوت حضرت عقیل کیساتھ بیت المال کے حوالے سے امام کا وہ اقدام ہے جوعدالت خواہی کی راہ پرامام نے اٹھایا مولای کائنات کی یہ عدالت خواہی اورعدالت پسندی جو ان کے اپنے خاندان کے نزدیک ترین افراد کیساتھ بھی پوری قاطعیت کیساتھ عمل میں آتی ہے ان کے بے مثال زہد وتقوی کا نتیجہ ہے۔ ظالم ا ور ستم کاردنیا کے علاوہ کیا چاہتے ہیں؟ نام و نمود،لذت مال وشہرت ،امارت وریاست و۔۔۔۔۔۔ یہ اوران جیسی تمام چیزیں مظالم کا سرچشمہ ہیں لیکن جب انسان اس منزل پرپہنچ گیا کہ اس نے پوری دنیا پرخط بطلان کھنیچ دیا اورجو کے چھلکے یا درخت کی پتی سے بھی زیادہ اسے بے حقیقت سمجھا اوراپنی توجہ صرف مبداء ومعاد،خدا کی خوشنودی اور رضا،اس کے عذاب سے نجات قیدو بند میں گرفتاربندوں کی خدمت ہی کو اپنی زندگی کا فلسفہ جانا ایسی عظیم ہستی کیلئے ظلم کوئی معنی نہیں رکھتا کیوں کہ وہ ظلم کو اپنا کوئی مقصد نہیں سمجھتا اس بات کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کی عقل کا چراغ خاموش نہ ہوا ہو اورجس کا دامن لغزشوں سے پاک ہو اوروہ خدا پر بھروسا رکھتا ہو۔
کلام امام کے آخری جملے لوگوں کو ظلم سے پرہیزکا طریقہ بتاتے ہیں کہ آزادی کیساتھ غورو فکرکریں اورخدا سے مدد طلب کریں اس کے سوا کوئی راہ نہیں ہے۔
تحرير: محمد علي جوہري
متعلقہ تحريريں:
عدل
قرآن اور امامت علي ( ع)
مسئلہ امامت و خلافت
ضرورت وجود امام
اسلام كے اہداف و مقاصد
عقيدہ توحيد و عدل کا انساني معاشرہ پر اثر