اسلام کا نظام عدل
دنیا کے معاشرتی نظام چلانے اور انسانوں کو مہذب بنانے کے لیۓ قوانین کی ضرورت پڑتی ہے ۔ قوانیین کا بنا دینا اور لاگو کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک کامیاب ملک اور معاشرے کو چلانے کے لیۓ ضروری ہے کہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہو ۔ امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے،توازن اور معتدل زندگی گزارنے کے لیے نظام عدل کا قیام انتہائی ناگزیر ہے-عدل چاہے انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی جگہ پر،ہر جگہ اپنی مستقل حیثیت رکھتا ہے- کسی بھی ملک یا معاشرے سے عدل کو ختم کر دیا جائے تو اس کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے اور وہ معاشرہ اندرونی بدامنی اور انتشار کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے ۔
دنیا میں لوگوں نے انصاف کو قائم کرنے کے لیے مختلف نظام ہائے عدالت اور قوانین کو وضع کیا لیکن ہر قانون میں کسی نہ کسی طرح رواداری،یکطرفہ معاملہ اور مجرم کے نکلنے کے راستے موجود ہیں جبکہ اسلامی نظام عدالت میں امیر و غریب،بادشاہ و فقیر،عام وخاص،حاکم و رعایا غرضیکہ ہر فرد قانونی اعتبار سے برابر ہے اور اس پر قانون کے لاگو ہونے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی اور تاریخ اسلام میں اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں اور ان میں سے انتہائی مشہور ترین واقعہ جب قریش خاندان کی عورت فاطمہ نامی عورت نے چوری کی تو اسامہ بن زید نے لوگوں کے کہنے پر اس کی سفارش کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لو أن فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا(اگر فاطمہ بنت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی چوری کرتی تو میں (محمد)اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا)-
متعلقہ تحریریں:
امام علی (ع) کی نگاہ میں اجتماعی عدالت سے متعلق حکومت کی ذمہ داری
عدالت علوی