• صارفین کی تعداد :
  • 3782
  • 9/4/2011
  • تاريخ :

شريعت النساء

حجاب والی خاتون

موت اور زندگي خدا کے ہاتھ ميں ہے- يہ جملہ ہم اپني زندگي ميں گاہے بگاہے سنتے رہتے ہيں-- ليکن بعض اوقات ايسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگي سے زيادہ موت مشکل ہوگئي ہے-  ہوا يوں کہ پچھلے دنوں ہمارے عزيزوں ميں ايک صاحب کا انتقال پُرملال ہوا- بس جناب اِدھر مرحوم کا دَم نکلا، اُدھر گھر والوں پر شريعت النساء کا نفاذ ہوگيا-

ديکھو، غم اپني جگہ، ليکن سب لوگ ہوش وحواس ميں جو رہنا، جو ہمارے ہاں ہوتا آيا ہے وہي ہوگا - پھپھو نے کچھ دير تک زور زور سے رونے کے بعد اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے کہا-

جي جي -- پھپھو! آپ ہي بڑي ہيں- بڑي بيٹي نے روتے ہوئے اپني بات مکمل کي-

اِدھر مرحوم امام بارگاہ سے آخري آرام گاہ کي طرف روانہ ہوئے اُدھر شريعت کے احکامات جاري ہونا شروع ہوئے- مرحوم کے بھائي نيچے اور خود مرحوم بالائي منزل پر رہائش پذير تھے، چنانچہ حکم صادر ہوا: ديکھو گھر ميں داخل ہونے کے بعد کوئي نيچے نہيں جائے گا- پہلے اوپر جائيں گے پھر اگر نيچے کوئي جائے تو جائے-‘‘

جي اچھا!بيک وقت کئي آوازيں سنائي ديں-

اچھا پھوپھو! وہ سوئم پرسوں کا ہي رکھا جائے گا نا؟بڑي بہو نے پوچھا-

اے راحت کي دلہن کبھي ہفتے کا بھي سوئم ہوا ہے؟!

وہ-- وہ، پھوپھو آج جمعرات ہے نا اس لئے پوچھ رہي تھي-بہو گھبرا گئي- نازک معاملات جو ہوتے ہيں-

نہيں بھئي نہيں اتوار کا رکھا جائے گا سوئم- اور ہاں ايک بات اور-- جو کھانے کا دسترخوان لگائے گا، وہي اٹھائے گا- اور يہ آج نہيں چاليسويں تک ايسا ہي ہوگا-پھوپھو کي بات سُن کر سب ايک دوسرے کو حيرت سے ديکھنے لگے کہ دوسرا حکم فتويٰ صادر ہوا: اور جو سوئم کا کھانا بنائے گا، دسويں، بيسويں اور چاليسويں کا کھانا بھي وہي بنائے گا-‘‘

لو جي چھٹي ہوئي! اب تو کوئي آگے بڑھ کر کام کرے گا ہي نہيں- کيونکہ جس نے کام کو ہاتھ لگايا، وہ چاليسويں تک پھنس گيا-

سوم کي مجلس مغرب سے کچھ قبل ختم ہوگئي- مردوں ميں سے کسي نے آکر کہا کہ مولانا صاحب کہہ رہے ہيں کہ فاتحہ نماز کے بعد کريں گے- يہ سُننا تھا کہ گويا دين و شريعت کي روح پامال ہوگئي ہو- فوراً چلائيں: نہيں بھئي نہيں! فاتحہ مغرب کے وقت ہي ہوگي- روح کو انتظار نہيں کروانا چاہيے- جلدي گھر چلو، اذان کے وقت ہي فاتحہ ہوگي-

چنانچہ اِدھر موذن نے حي علي الصلوۃکہا اور اِدھر شريعت النساء نے حي علي الغذائکي آواز لگائي، اور تمام رشتہ دار ان کي آوا ز پر لبيک کہتے ہوئے گھر کي طرف روانہ ہوگئے کہ چلو خدا کو بعد ميں خوش کرليں گے (نماز پڑھ کر) پہلے مرحوم کو خوش کرليں- البتہ بہت سے ايسے لوگ بھي اس ميں شامل تھے جو عام طور پر اولِ وقت ميں نماز پڑھ ليتے تھے ليکن پھوپھو کي ناراضگي اور بدمزگي کے ڈر سے انہوں نے آج کھانے ہي کو ترجيح دي-

فاتحہ کے بعد دسترخوان لگ گئے اور سب لوگ جلدي جلدي اپنے لئے جگہ بنانے لگے- کان پڑي آواز سنائي نہيں دے رہي تھي- اور ہم يہ سوچ رہے تھے کہ مرحوم تو زندگي بھر نماز کے بڑے پابند تھے وہاں جاکر کيسے ہوگئے کہ نماز کے وقت کھانے کا انتظار کرنے لگے- خدا کے پاس جاکر تو مذہب سے اور گہر الگاو ہوگيا ہوگا-

ليکن يہ کيا؟ -- کھانے کے اختتام پر ايک جگہ سے شور شروع ہوگيا -- شايد کسي کو کھانے ميں کوئي چيز کم ملي ہے يا کوئي اور وجہ ہے، ہم نے بھي کان اس طرف لگانے کي کوشش کي - آواز کي سمت جو بڑھے تو پتہ چلا کہ شريعت النساء کے زيرِ عتاب چھوٹي بہو ہے: اے ميں نے کہا بھي تھا کہ جو دسترخوان لگائے گا وہي بڑھائے گا-‘‘

وہ -- پھوپھو بھابھي کا چھوٹا والا بيٹا بہت رو رہا تھا- ميں نے کہا کہ آپ اس کو ديکھ ليں ميں دسترخوان اٹھا ليتي ہوں-رنگے ہاتھوں پکڑي گئي مجرمہ نے ہکلاتے ہوئے صفائي پيش کي-

ارے رو رہا ہے تو چپ ہو جائے گا- اگر اس طرح سے من ماني ہوتي رہي تو ميرا تو يہاں چاليسويں تک رکنا مشکل ہو جائے گا- پھر جيسي تم لوگوں کي مرضي- پھوپھو نے آخري چوٹ کي-

بڑي بہو جلدي سے بچے کو مياں کے حوالے کر کے پھوپھو کے نزديک آئي اور بولي -- پھوپھو غلطي ميري ہي تھي، مجھے ہي نہيں نہيں جانا چاہئے تھا- اب جيسے آپ کہيں گي ہم لوگ اسي طرح کريں گے-(اس نے دل ميں سوچا ہوگا کہ چاليس دن تو گزر ہي جائيں گے ليکن زندگي بھر جو باتيں سننے کو مليں گي وہ ناقابلِ برداشت ہوں گي)

پھوپھو دسواں کس دن رکھنا ہے؟ ابھي اعلان کرنا ہے-مرحوم کي بڑي بيٹي نے سوال کيا-

جمعرات کا رکھ لو- اور ياد رہے جس دن ايک چيز ہو جائے اس دن دوسرا پروگرام نہيں ہونا چاہيے- ايک نيا فتويٰ --

ہم جو کافي باتيں برداشت کر رہے تھے، اب ہم سے برداشت نہ ہوسکا اور ہم نے ميدان ميں کودنے کا فيصلہ کر ليا- پھوپھو اگر جمعرات کو ہي بيسواں رکھ ليا جائے تو کيا ہوگا؟

پھوپھو نے ہماري طرف غصيلي نگاہوں سے ديکھا کہ يہ کون گستاخ ہے جو ان کي سلطنت شريعت ميں سوال کر رہا ہے- ہم بھي ان کي نگاہوں سے کچھ لمحوں کے لئے تو گڑبڑائے ليکن پھر دل بڑا کر کے ان کي طرف ديکھنے لگے-

اے ہونے کو کيا ہوگا- محمود کے گھر والوں نے بات نہيں ماني تھي، باپ کے انتقال کے چاليس دن کے اندر اندر ماں کا بھي انتقال ہوگيا-‘‘

وہ -- وہ، محمود بھائي کي امي--ہميں ياد آيا- پھوپھو وہ تو بيچاري خود دو سال سے موت اور زندگي کي کشمکش ميں تھيں، ويسے بھي بونس ميں چل رہي تھيں-

اے بس رہنے دو، ہمارے ہاں تو ہميشہ سے يہي ہوتا آيا ہے، اگر تم لوگوں کو اعتراض ہے تو جو جي چاہے کرو، مجھ سے کچھ پوچھنے کي ضرورت نہيں ہے-آخري جملہ سنتے ہي گھر کي بہوئيں گھبرا گئيں اور ہميں دور لے جاکر سمجھايا بجھايا اور دوسري طرف پھوپھو کو راضي کيا- ليکن ہم سوچتے رہے کہ اس جديد دور ميں بھي خوشي اور غم کے موقع پر کچھ گھرانوں ميں شريعت النساءشريعتِ محمديسے آگے آگے ہوتي ہے- اس کے خلاف آواز اٹھانا آپ کے اور ہمارے حق ميں بہتر ہے-

تحریر: فرزانہ جوہر


متعلقہ تحريريں :

اسلام ميں تعليم نسوان پر تاکيد

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ چہارم )

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ سوّم )

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ دوّم )

شريک حيات کے حقوق ( حصّہ دوّم )