مہدویت
چونکہ موضوع امام مہدی ایک اھم موضوع ھے لہٰذا اس سلسلہ میں ایک مستقل باب میں بحث کرتے ھیں اور اس باب میں تین مرحلوں میں بحث کریں گے:
۱۔ نظریہ ”مہدویت“ اوراس کا اسلام سے رابطہ۔
۲۔مسلمانوں کے درمیان متفقہ احادیث نبوی میں امام مہدی کی شناخت اورتعین۔
۳۔ امکانِ غیبت اور اس کے دلائل۔
لہٰذا اس سلسلہ میں تفصیلی معلومات کے لئے آئندہ باب میں رجوع فرمائیں۔
بحث ”امامت“ عقل و روایات کی روشنی میں آپ نے ملاحظہ فرمائی اور امامت کے سلسلہ میں ”احادیث“ صاف اور واضح طور پر ملاحظہ کیں۔
نیز ائمہ (ع) کی پاک و پاکیزہ زندگی، سیرت اور علمی عظیم آثار پر بھی توجہ فرمائی۔ کیا ان سب حقائق کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی شخص یہ کہہ سکتا ھے کہ شیعہ یهودیوں کے پیروکار ھیں اور دائرہ اسلام سے خارج ھیں؟! اسی طرح گذشتہ وضاحت کے بعد بھی کیا کوئی یہ کہنے میں حق بجانب هوگا کہ شیعیت کا ظهور خلافت عثمان بن عفان کے زمانہ میں هوا، اور مسلمانوں کے ایک گروہ نے قیام کیا۔
کیا عبد اللہ بن سبا کو شیعیت کا موٴسس کھا جاسکتا ھے کہ اس نے اسلام کا لبادہ پہن کر اسلام کو نابود کرنے کی کوشش کی؟!
اور کیا تاریخ میں عبد اللہ بن سبا کا وجود ھے جس کی طرف شیعیت کی ایجاد کی نسبت دی جائے؟!
اب ھم اس سلسلہ میں مورخین کے نظریات قلمبند کرتے ھیں:
۱۔ ڈاکٹر برنارڈلویس نے عبد اللہ بن سبا کا وجود صرف خیالی بتایا ھے اور اس بات کی تاکید کی ھے کہ مختلف زمانے میں ابن سبا کی طرف نسبت دینا متاخرین علماء کی من گھڑت کھانی ھے۔
۲۔ ڈاکٹر طٰہ حسین صاحب نے ابن سبا کی طرف منسوب تمام واقعات کو ناقابل قبول مانا ھے اور مورخین کی روایات پر حاشیہ لگاتے هوئے کھا:
”شیعوں پر یہ سب تھمتیں ،شیعہ مخالفین اور شیعہ دشمنوں نے لگائی ھیں“۔
۳۔ ڈاکٹر جواد علی صاحب نے عبد اللہ بن سبا کی تمام باتوں کو مشکوک قرار دیا ھے کیونکہ اس کی تمام روایتیں سیف بن عمر ھی سے ھیں اور اس کے علاوہ کسی نے بھی بیان نھیں کی جبکہ سیف بن عمر خود بھی اور اس کی روایات بھی غیر قابل قبول ھیں۔
۴۔ ڈاکٹر علی الوردی صاحب کا نظریہ ھے کہ اموی حکّام نے جلیل القدر صحابی جناب عمار بن یاسر کو عبد اللہ بن سبا کا لقب دیا ھے اور اس پر بہت سے قرائن وشواہد ھیں۔
۵. استاد احمد عباسی صالح صاحب کی نظر میں عبد اللہ بن سبا کا وجود ایک افسانہ ھے، جیسا کہ موصوف اپنی گفتگو کے دوران فرماتے ھیں:
”اس میں کوئی شک و شبہ نھیں ھے کہ عبد اللہ بن سبا ایک خرافی تصور کا نام ھے اور لوگوں نے اس خرافی شخص کا وجوداس لئے تصور کیاکہ اس کی طرف جو کچھ بھی نسبت دینا چاھیں وہ دے سکیں، چنانچہ عبد اللہ بن سبا کے جو واقعات موجود ھیں وہ سب متاخرین کی من گھڑت کھانیاں ھیں کیونکہ قدیمی منابع اور کتابوں میں اس کے وجود پر کوئی دلیل نھیں ھے چہ جائیکہ اس کے نظریات کا کوئی وجود بھی هو“
پس خلاصہ یہ هوا کہ عبد اللہ بن سبا صرف ایک افسانہ ھے جس کا ذکر تاریخ میں نھیں ملتا تو پھر حقیقت میں شیعیت کی بنیاد رکھنے والا کون ھے؟ اور کس نے سب سے پھلے اس لفظ کو استعمال کیا؟
جواب :
سب سے پھلے اس لفظ کو حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے استعمال کیا جیسا کہ طبری اور حافظ ابن حجر نے اپنے مشهور حفاظ سے اس روایت کو نقل کیا ھے کہ ایک روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیہ ٴ کریمہ کی تلاوت فرمائی:
<اِنَّ الَّذِینَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اُوْلٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ>
”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرتے ھیں یھی لوگ بہترین خلائق ھیں“
اور اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:
”ھم انت وشیعتک“ (وہ آپ او رآپ کے شیعہ ھیں)
اب جبکہ یہ معلوم هوگیا کہ سب سے پھلے اس کلمہ کا استعمال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا اور شیعہ سے مراد حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو لیا تو پھر خود غرض او ر شک کرنے والوں کے بے جا اعتراضات کا خاتمہ هوجاتا ھے۔
اَلْحَمُدْ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَاکُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَو لَا اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ۔
والسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین ۔
بشکریہ صادقین ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
غيبتِ امام زمان ميں دعا
نگاہ دہر ہے پھر ابن بوتراب (عج) کی سمت ( حصّہ پنجم )
نگاہ دہر ہے پھر ابن بوتراب (عج) کی سمت ( حصّہ چهارم )
منتظَر ہونا
نگاہ دہر ہے پھر ابن بوتراب (عج) کی سمت ( حصّہ سوّم)