آدم عليہ السلام كى باز گشت خدا كى طرف
وسوسئہ ابليس اور آدم كے جنت سے نكلنے كے حكم جيسے واقعات كے بعد آدم متوجہ ہوئے كہ واقعاً انہوں نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور اس اطمينان بخش اور نعمتوں سے مالا مال جنت سے شيطانى فريب كى وجہ سے نكلنا پڑا اور اب زحمت مشقت سے بھرى ہوئي زمين ميں رہيں گے اس وقت آدم اپنى غلطى كى تلافى كى فكر ميں پڑے اور مكمل جان ودل سے پروردگار كى طرف متوجہ ہوئے ايسى توجہ جو ندامت وحسرت كا ايك پہاڑساتھ لئے ہوئے تھى اس وقت خداكا لطف وكرم بھى ان كى مدد كے لئے آگے بڑھا اورجيسا كہ قرآن ميں خدا وندعالم كہتا ہے:
'' آدم نے اپنے پروردگار سے كچھ كلمات حاصل كئے جو بہت مو ثر اور انقلاب خيز تھے ،ان كے ساتھ توبہ كى خدا نے بھى ان كى توبہ قبول كرلى كيونكہ وہ تواب والرّحيم ہے ''_(1)
يہ صحيح ہے كہ حضرت آدم نے حقيقت ميں كوئي فعل حرا م انجام نہيں ديا تھا ليكن يہى ترك اولى ان كے لئے نافرمانى شمار ہوتا ہے، حضرت ادم فوراً اپنى كيفيت وحالت كى طرف متوجہ ہوئے اوراپنے پروردگار كى طرف پلٹے _
بہرحال جو كچھ نہيں ہونا چاہئے تھايا ہونا چاہئے تھا وہ ہو اور باوجود يكہ آدم كى توبہ قبول ہوگئي ليكن اس كا اثروضعى يعنى زمين كى طرف اترنايہ متغير نہ ہوا _
خدا نے جو كلمات آدم عليہ السلام پر القاكئے وہ كيا تھے ؟
توبہ كے لئے جو كلمات خدا نے آدم عليہ السلام كو تعليم فرمائے تھے اس سلسلے ميں مفسرين كے درميان اختلاف ہے _
مشہور ہے كہ وہ جملے يہ تھے:
(قالا ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنكونن من الخاسرين)
''ان دونوں نے كہا خدا يا ہم نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اگر تونے ہميں نہ بخشا اور ہم پررحم نہ كيا تو ہم زياں كاروں اور خسارے ميں رہنے والوں ميں سے ہوجائيں گے _''(2)
كئي ايك روايات جو طرق اہل بيت عليہم السلام سے منقول ہيں،ان ميں ہے كہ كلمات سے مراد خدا كى بہترين مخلوق كے ناموں كى تعليم تھى يعنى محمد ،على ،فاطمہ ، حسن اور حسين عليہم السلام اور آدم نے ان كلمات كے وسيلے سے درگاہ الہى سے بخشش چاہى اور خدا نے انہيں بخش ديا _(3)
ادم عليہ السلام كا ماجرا اور اس جہان پر ايك طائرانہ نظر
اگر چہ بعض ايسے مفسرين نے جو افكار غرب سے بہت زيادہ متاثر ہيں ،اس بات كى كوشش كى ہے كہ حضرت ادم عليہ السلام اور ان كى زوجہ كى داستان كو اول سے لے كر اخر تك تشبيہ ،مجاز اور كنايہ كا رنگ ديں اور اج كى اصطلاح ميں يوں كہيں كہ يہ ايك سمبولك (SIMBOLIC) تھا لہذاانھوں نے اس پورى بحث كو ظاہرى مفہوم كے خلاف ليتے ہوئے معنوى كنايہ مراد ليا ہے_
ليكن اس بات ميں كوئي شك و شبہ نہيں كہ ان ايات كا ظاہر ايك ايسے واقعى اور حقيقى ''قصہ''پر مشتمل ہے جو ہمارے اولين ماں باپ كے لئے پيش ايا تھا چونكہ اس پورى داستان ميں ايك مقام بھى ايسانہيں ہے جو ظاہرى عبارت سے ميل نہ كھاتا ہو يا عقل كے خلاف ہو ،اس لئے اس بات كى كوئي ضروت نہيں كہ اس كے ظاہرى مفہوم پر يقين نہ كيا جائے يا جو اس كے حقيقى معنى ہيں ان سے پہلو تہى كيا جائے_
ليكن دراين حال اس حسى و عينى واقعہ ميں انسان كى ائندہ زندگى كے متعلق بھى اشارے ہوسكتے ہيں_(4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) سورہ بقرہ ايت 37
(2) سورہ ا عراف آيت 23
(3) يہ تين قسم كى تفاسير ايك دوسرے سے اختلاف نہيں ركھتيں كيونكہ ممكن ہے كہ حضرت آدم كو ان سب كلمات كى تعليم دى گئي ہو كہ ان كلمات كى حقيقت اور باطنى گہرائي پر غور كرنے سے آدم ميں مكمل طور پر انقلاب روحانى پيدا ہو اور خدا انہيں اپنے لطف وہدايت سے نوازے
(4) يعني:انسان كى اس پر جنجال زندگى ميں بہت سے ايسے واقعات پيش اسكتے ہيںجو قصہ ادم عليہ السلام و حوا سلام اللہ عليہا سے مشابہت ركھتے ہيں ،اس كى مثال يوں سمجھنا چاہئے كہ ايك طرف تو وہ انسان ہے جو قوت ،عقل اور ہوا و ہوس سے مركب ہے ، يہ دونوں طاقتيں اسے مختلف جتھوں ميں كھينچ رہى ہيں ،دوسرى طرف كچھ ايسے جھوٹے رہبر ہيں جن كا ماضى شيطان كى طرح جانا پہچانا ہے اور وہ انسان كو اس بات پر اكسا رہے ہيں كہ عقل پر پردہ ڈال كر ہوا وہوس كو اختيار كر لو تاكہ يہ بے چارہ انسان پانى كى اميد ميں''سراب''كو اب سمجھ كر ريگستانوں ميں بھٹك كر اپنى جان گنوا بيٹھے_
ايسے شيطانوں كے بہكانے ميں اجانے كا پہلا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ انسان كے جسم سے''لباس تقوى ''گر جاتا ہے اور اس كے اندرونى عيوب ظاہر و اشكار اہوجاتے ہيں ،دوسرا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ مقام قرب الہى سے دور ہو جاتا ہے اور انسان اپنے بلندمقام سے گر جاتا ہے اور سكون و اطمينان كى بہشت سے نكل كر حيات مادى كى مشكلات و افات كے جنگلوں ميں گھر جاتا ہے اس موقع پر بھى عقل كى طاقت اس كى مدد كر سكتى ہے اور اسے اس نقصان كى تلافى كا موقع فراہم كر سكتى ہے اور اسے خدا كى بارگاہ ميں دوبارہ بھيج سكتى ہے تاكہ جرا ت و صراحت كے ساتھ اپنے گناہ كا اعتراف كرے، ايسا اعتراف جو اس كى زندگى كى تعمير نو كا ضامن ہو اور اس كى زندگى كا ايك نيا موڑ بن جائے، يہى وہ موقع ہوتا ہے جب كہ دست رحمت الہى بار ديگر اس كى طرف دراز ہوتا ہے تاكہ اسے ہميشہ كے انحطاط اور تنزل سے نجات دے ،اگر چہ اپنے گذشتہ گناہ كا تلخ مزہ اس كے كام و دہن ميں باقى رہ جاتا ہے جو اس كا ثر وضعى ہے ،ليكن يہ ماجرا ،اس كے لئے درس عبرت بن جاتا ہے كيونكہ وہ اس كے شكست كے تجربہ سے اپنى حيات ثانيہ كى بنياد مستحكم كر سكتا ہے اور اس كے نقصان و زيان كے ذريعے سرورائندہ فراہم كر سكتا ہے _