مفید تفریحیں، کھیل ، تیر اندازی ،گھوڑ سواری ، تیراکی
مفید تفریحیں
نفسیات کے عظیم ماھرین اس کے قائل ھیں کہ تفریح انسان کا فطری تقاضا ہے جس کا پورا کرنا نھایت ضروری ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے چند یاد دھانیاں کی ھیں ۔
پاک و پاکیزہ دین، اسلام نے بھی اس مسئلہ کو خاص اہمیت دی ہے اور مفید تفریحوں کی سمت لوگوں کی رھنمائی کی ہے،ساتہ ھی ساتہ خطر ناک تفریحوں سے منع بھی کیاہے ۔ ذیل میں بعض مفید تفریحوں کا تذکرہ کیاجائے گا لیکن اس سے پھلے جو ان نسل سے یہ گذارش کرنا چاھتے ھیں کہ تفریحوں کے سلسلے میں ان تفریحوں کو اختیار کریں جن سے روحانی اور فکری صلاحیتوں میں اضافہ ھو اور جوانوں کے سر پرستوں سے یہ درخواست کرہے کہ ایسی تفریحوں سے اپنے بچوں کو دور رکھیں جن سے انکی فکری ترقی رک جاتی ہے اور اخلاقیات پر برا اثر پڑتاہے کیونکہ جس طرح مفید تفریحیں تھکاوٹ دور کرنے اور فکری ترقی کا ذریعہ ھیں اسی طرح غلط تفریحیں اعصاب کو اور زیادہ تھکا دیتی ھیںاور فکرو عقل کی ترقی کی راہ میں حائل ھو جاتی ھیں ۔
” اگر تم اس کے عادی ھو جاؤ کہ اپنے کو ایسی مصنوعی تفریحوں میں مشغول کر لو جس کی جسم و روح کو ضرورت نہ ھو تو اس کا نتیجہ یہ ھو گا کہ رفتہ رفتہ تمھاری فکری صلاحیت ضعیف ھو جائے گی اور ذوق و شوق رخصت ھو جائے گا ۔،،(1)
مطالعہ اور ارتقاء فکر
کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسی تفریح ہے جس سے انسان کی فکری اور روحانی صلاحیتوں میں غیر معمولی ترقی ھوتی ہے اور اگر مطالعہ ذوق و شوق کے ہمراہ ھو تو بھت ھی زیادہ لذت بخش اور ترو تازگی کا سبب بنتاہے ۔
حضرت علی عليه السلام نے ارشاد فرمایا :
” حکمت کی نئی اور حیرت انگیز باتوں سے اپنی روح کو تر و تازہ کرو کیونکہ روح بھی بدن کی طرح تھک جاتی ہے “ (2)
حکمت کی باتیں مطالعہ اور دانشوروں کے ساتہ اٹھنے بیٹھنے سے حاصل ھوتی ھیں جس سے روح کو تازگی حاصل ھوتی ہے اور فکری صلاحیتوں میں اضافہ ھوتا ہے ۔
جوانوں کو چاھئے کہ اپنے فاضل وقت کا کچہ حصہ مفید کتابوں کے مطالعہ میں گذاریں ۔ اگر ابتداء میں کوئی خاص انسیت محسوس نہ ھوتو بار بار کی تکرار اور مفید کتابوں کے انتخاب اور مطالعہ کے ذریعہ دلچسپی پیدا کی جا سکتی ہے ۔ اگر ہم جوان نسل کو مفید کتابوں کے مطالعہ کا عادی بنا سکیں تو جوانوں کی فکری اور عقلی ترقی کی راہ میں ایک اہم قدم ھو گا اور اس طرح جوانوں کو فساد کی طرف جانے سے کافی حد تک روک سکتے ھیں اور مفید کتابوں کے ذریعہ بر بادیوں کی راہ میں رکاوٹ ایجاد کر سکتے ھیں ۔ اگر مطالعہ کی عادت نہ ھو تو جوان اپنا فاضل وقت غلط تفریحوں میں بسر کرے گا ۔
وہ لوگ جو ایک طرح کا کام کرتے کرتے تھک جاتے ھیں وہ بھی مطالعہ کے ذریعہ تازگی حاصل کر سکتے ھیں، اس کے علاوہ اپنی فکری صلاحیتوں میں اضافہ بھی کر سکتے ھیں اور اس طرح اپنی دینی اور مذھبی معلومات میں بھی اضافہ کر سکتے ھیں ۔
سفر
مفید اور لذت بخش تفریحوں میں ایک تفریح سفر بھی ہے جو روح اور جسم کی صحت و سلامتی کے لئے بھت موثر ہے ۔ اس مفید اور نتیجہ خیز تفریح کی طرف اسلام نے مسلمانوں کو دعوت دی ہے اور اس کا شوق دلایا ہے ۔ البتہ یہ بات ذھن میں رہے کہ اسلام نے ھر طرح کے سیر و سفر کی اجازت نھیں دی ہے بلکہ اس سیر و سفر کو قبول کیا ہے جو انسانی مقاصد کے تحت ھواور فرد یا سماج کو اس سے فائدہ پھونچتا ھو ۔
پیغمبر اسلام(ص) نے ارشاد فرمایا :
” سفر کرو تاکہ صحت مند اور تندرست رھو “ ۔ (3)
قرآن کریم نے تقریباً دس آیتوں میں سیر و سفر کی دعوت دی ہے تاکہ انسان گذشتہ قوموں کے حالات سے واقف ھو ان کے انحطاط اور انحراف کے اسباب پر غور کرے تاکہ وہ ایک بیدار دل اور حقیقت پسندروح کے ساتہ زندگی بسر کر سکے ۔
قرآن کا فرمان ہے :
” لوگ کیوں سیر و سفر پر نھیں نکلتے تاکہ وہ حقائق ھستی کو سمجھیں اور ادراک کریں“۔ (4)
یعنی سیر و سفر بیداری کا ذریعہ ، روحی و معنوی تقویت کا سبب اور نصیحت آمیز و عبرت انگیز ھو ۔
وہ لوگ جو تھکاوٹ دور کرنے اور نئی طاقت حاصل کرنے کے لئے سفر کرتے ھیں انھیں لذت بخش تفریح کا بھی لطف آتا ہے اور ان کی صحت و تندرستی بھی بر قرار رھتی ہے کیونکہ ” آج کی طب میں یہ بات ثابت ھو چکی ہے کہ ایک طرح کا کام اورایک طرح کی غذا انسانی زندگی کے لئے نقصان دہ ہے اس سے اعضاء ِجلد فرسودہ اور کمزور ھو جاتے ھیں ۔ لھذا تغیر اور تبدل انسانی صحت کے لئے ضروری ہے اس طرح کے پروگرام کو زندگی کا جزء ھونا چاھئے ۔( 5)
لیکن وہ سفر جو ھوا و ھوس اور عیش و عشرت کےلئے ھو وہ دل و دماغ کی بیداری کے بجائے اعصاب کی تھکن اورجسمانی و فکری جمود کا سبب بنتا ہے۔ اس طرح کے سفر کو مفید تفریح نھیں کھا جا سکتا۔ اسلام نے اس طرح کی تفریحوں سے سختی سے منع کیا ہے ۔
کھیل
کھیل بھی ایک مفید تفریح ہے اور سفر کی طرح تر و تازگی کا سبب بنتاہے ۔ صحت و تندرستی میں کافی موثر ہے ۔ چونکہ اس سے بدن تندرست رھتا ہے لھذا روح کی سلامتی کے لئے بھی معین و مددگار ہے ۔ظاھر ہے کہ انسان کی سعادت اس کے جسم اور روح کی سلامتی سے براہ راست متعلق ہے ۔ کھیل کی اہمیت اس بنا پر ہے کہ اس سے جسم صحیح و سالم رھتا ہے اور روح کی ارادی قوت میں اضافہ ھوتا ہے ۔
یہ بات واضح ہے کہ میدان جنگ میں وھی جوان مردانہ ہمتوں کے ساتہ ثابت قدم رہ سکتا ہے جس کے ایمان کے ساتہ ساتہ اس کا جسم بھی طاقتور ھو ۔ ضعیف اور کمزور افراد نہ صرف میدان جنگ میں ثابت قدم نھیں رہ سکتے بلکہ وہ زندگی کے میدان میں بھی شکست کھا جاتے ھیں، البتہ انسان کوایسے کھیلوں میں مصروف ھونا چاھئے جھاں اخلاقی اور انسانی اقدار مجروح نہ ھوتے ھوں ۔
تیر اندازی
دشمنوں سے مقابلے اور قرآن و انسانیت کے دفاع کے لئے تیر اندازی کی خاص اہمیت ہے اس آیت ( دشمنوں کے مقابلے کے لئے جو کچہ قوت فراہم کر سکتے ھو فراہم کرو ) کے ذیل میں حضرت پیغمبر اسلام (ص) نے تیر اندازی کو ان چیزوں میں شمار کیا ہے ۔ (6)
حضرت امام جعفر صادق عليه السلام خود بنفس نفیس تیر اندازی کے مقابلے میں شرکت فرماتے تہے ۔ ( 7)
حضرت امام محمد باقر عليه السلام نے ” ھشام بن عبد الملک سے فرمایا : میں جوانی میں تیر اندازی کرتا تھا، جوانی کے بعد اس کو ترک کر دیا “ ۔(8)
گھوڑسواری
اسلام نے گھوڑ سواری کو بھی اہمیت دی ہے ،پیغمبر اسلام (ص) خود گھوڑ سواری کے مقابلے میں شرکت فرماتے تہے اور مسلمانوں کو اس ورزش کا شوق دلاتے تہے اور سبقت لیجانے والوں کوانعام بھی دیتے تہے ۔ (9)
ایک مرتبہ دشمنوں نے مدینہ میں مسلمانوں کے مال پر حملہ کیا ۔ پیغمبر اسلام (ص) چند اصحاب کے ہمراہ گھوڑوں پر سوار ھوئے اور دشمنوں کا تعاقب کیا لیکن دشمنوں تک نہ پھونچ سکے ۔ ابو قتادہ نے پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں عرض کیا : اب جبکہ دشمن فرار ھو چکا ہے کیوں نہ ہم آپس میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں۔ پیغمبر اسلام(ص) نے بھی شرکت کی اور سب سے آگے نکل گئے ۔ (10)
تیراکی
تیرنا ایک عمدہ اور مفید تفریح ہے اور اعضاء کی تقویت میں کافی موثر ہے ۔
پیغمبر اسلام (ص) نے ارشاد فرمایا :
” اپنے فرزندوں کو تیرنا اور تیر اندازی سکھاؤ “ ۔(11)
جس وقت دریا عبور کرنا ھویا کسی ڈوبتے ھوئے کو نجات دینا ھو یاجنگ اور اس طرح کے دوسرے خطرناک مواقع پر تیراکی خاص اہمیت کی حامل ہے اور اس سے بڑے فوائد حاصل ھو سکتے ھیں ۔
یاد دھانی
والدین اور بچوں کے سر پرستوں کو اس امر کی طرف خاص توجہ دینا چاھئے کہ انکی اولاد ناجائز تفریحوں میں ملوث نہ ھونے پائے ۔ تفریح کے لئے ایسی جگھوں پر جائیں جو ان کے اخلاق اور تربیت کے لئے مفید ھوں ۔
حضرت رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا :
” خدا ان والدین پر رحمت کرے جو نیکی اور اخلاق میں اپنے بچوں کی مدد کرتے ھیں “ ۔(12)
اگر تفریح کے لئے معقول اور مناسب مراکز موجود نہ ھوں تو والدین کو چاھئے کہ اپنے امکان بھر گھر ھی میں معقول اور مفید تفریح کے وسائل فراہم کریں تاکہ ان کے بچے فساد اور بر بادیوں میں ملوث نہ ھونے پائیں ۔
کتنا مناسب ہے کہ نیکو کار اور مخیر افراد اپنے جوانوں کے لئے تفریح کے معقول اور مناسب مراکز ایجاد کریں جو ان کی فطری ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتہ ساتہ انھیں اخلاق اور انسانی اقدار کی بھی تعلیم دے تاکہ وہ صحیح بنیادوں پر اپنی زندگی تعمیر کر سکیں ۔انھیں نیکیوں کی تعلیم دی جائے تاکہ وہ ھر طرح کے فساد اور گمراھی سے محفوظ رہ سکیں اور تفریح کے بھانے ان کے اخلاقیات برباد نہ ھونے پائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالجات
(1) رشد و زندگی ص 272
(2)کافی ج 1 ،ص 48
(3) مستدرک ص 22
(4) سورہ حج آیت 46
(5)مجلھٴ تندرست شمارہ 6 ص 22
(6)سورہ انفال آیت 60۔ وسائل ج13 ص 348
(7)وسائل ج 13 ص 348
(8) مستدرک ج2 ص 516
(9) وسائل ج 13 ص 351
(10) وسائل ج13 ص346
(11) وسائل ج 15 ص 194
(12) وسائل ج15 ص 199