• صارفین کی تعداد :
  • 4362
  • 12/22/2007
  • تاريخ :

افق زندگی میں فروغ محبت

دسته گل

بشری حیات کا افق ھمیشہ فروغ محبت سے روشن و تابناک رھا ھے ۔ محبت کے نتائج بڑے دور رس ھوتے ھیں ۔ انسان کی مادی و معنوی ترقی میں محبت بڑے عجیب انداز سے اثر انداز ھوتی ھے ۔ یہ عظیم طاقت فطرت کی رہ گذر سے ھوتے ھوئے انسانی ضمیر میں خمیر ھو کر ایک گھرے اور بیکراں سمندر میں جا کر ختم ھو جاتی ھے ۔

 

اگر محبت کا حیات بخش فروغ افق زندگی سے محروم ھو جائے تو وحشتناک تنھائی و نا امیدی کی تاریکی آدمی کی روح کا محاصرہ کر لیتی ھے اور چھرھٴ حیات رنج و غم کا وہ مرقع پیش کرنے لگتا ھے جس کے دیکھنے سے آدمی زندگی سے بیزار ھو جائے ۔

 

انسان فطرتاً مدنی الطبع پیدا ھوا ھے ۔ دوسروں سے ربط و ضبط ،میل ملاپ اس کے وجود کے ضروریات میں سے ھے ۔ فکری اختلافات عموماً انسان کو بزم سے بیزار بنا کر تنھائی کا خو گر بنا دیتے ھیں ۔جو لوگ عمومی اجتماعات سے فرار کرتے ھیں اور تنھائی کے خوگر ھو چکے ھیں ان کے وجو د وفکر میں یقینا نقص پیداھوجاتا ھے ۔کیونکہ یہ بات طے شدہ ھے کہ انسان کبھی بھی تنھائی میں خو ش بختی کااحساس نھیں کر سکتا ۔ بس یوں سمجھئے جس طرح انسان کی جسمانی ضروریات بھت زیادہ ھیں اور انسان ان کی تکمیل کے لئے مسلسل تگ ودو میں لگا رھتا ھے ۔ اسی طرح اس کی روح تشنھٴ محبت ھے اور اس کی بیشمار خواھشات ھیں جن کی تکمیل کے لئے مسلسل سعی و کوشش کرتا رھتا ھے ۔ انسان نے جس دن سے دنیا کے اندر قدم رکھا ھے اور اس نے اپنی کتاب زندگی کے اوراق کھولے ھیں اس وقت سے لیکر ان آخری لمحات تک جب اس کی کتاب زندگی ختم ھونے والی ھوتی ھے وہ محبت و خلوص مھربانی و نوازش کا بھوکا رھتا ھے اور اپنے دل میں اس کا احساس بھی کرتا ھے اسی لئے جب زندگی کے بوجہ کو اپنے کندھوں پر زیادہ محسوس کرنے لگتا ھے اور روح فرسا حادثات اس کو جھنجھوڑ کر رکہ دیتے ھیں ۔ مصائب و متاعب ، ناکامی و نا امیدی رشتہ ٴ امید کو قطع کرنے لگتی ھے تو وہ اس وقت بڑی شدت کے ساتھ ضرورت سے زیادہ مھر و محبت کا پیاسا نظر آتا ھے اور اس کا دل چاھتا ھے کہ اس کے دل پر امید کا نور سایہ فگن ھو جائے اور اس وقت اس کے سکون و آرام کی کوئی صورت مھر و محبت کے علاوہ نظر نھیں آتی ایسی حالت میں اس کے زخم و غم کا مرھم صرف نوازش و محبت ھی ھوا کرتی ھے ۔

 

اپنے ھم نوع افراد سے الفت و محبت انسانی جذبات کا درخشاں ترین جذبہ ھے بلکہ اس کو فضائل اخلاقی کا منبع سمجھنا چاھئے ۔ دل بستگی اورارتباط قابل انتقال چیز ھے ۔ دوسروں کی محبت حاصل کرنے کے لئے سب سے بھترین ذریعہ یہ ھے کہ انسان دوسروں سے محبت کرے اپنے پاک جذبات کو دوسروں پر بے دریغ نچھاور کرے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اپنے ھم نوع افراد سے محبت کرنے کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا فریضہ ھی نھیں ھے ۔ دوسروں سے اظھار محبت بڑا نفع بخش سودا ھے اگر کوئی اپنے خزانھٴ دل کے اس گوھر کو دوسرے کو دیدے تو اس کے بدلے میں اس کو بڑے قیمتی جواھرات ملیں گے ۔ لوگوں کے دلوں کی کنجی خود انسان کے ھاتہ میں ھے اگر کوئی محبت کے گرانبھا خزانوں کو حاصل کرنا چاھتا ھے تو اپنے پاس خلوص و محبت سے بھرا دل رکھے اور لوح دل کو تمام نا پسندیدہ صفات سے منزہ کرلے ۔

 

اھل فلسفہ کھتے ھیں: ھر چیز کا کمال اس کی خاصیت کے ظھور میں ھے اور انسان کی خاصیت انس و محبت ھے ، یہ انس و محبت کا جذبہ اور روحانی تعلق جو لوگوں کے دلوں میں پیدا ھوتا ھے وہ ھمکاری و ھمزیستی کی بنیاد کو لوگوں میں مضبوط کرتا ھے ۔

 

ڈاکٹر کارل اپنی کتاب ” راہ و رسم زندگی “ میں تحریر کرتا ھے: معاشرے کو خوشبخت بنانے کے لئے ضروری ھے کہ اس کے افراد ایک مکان کی اینٹوں کی طرح باھم متصل و متحد ھوں لیکن سوال یہ ھے کہ لوگوں کو کس سیمنٹ کے ذریعہ انیٹوں کی طرح متصل کیا جائے ؟ تو اس کا جواب یہ ھے کہ وہ سیمنٹ محبت ھے ۔ جو کبھی کسی ایک خاندان کے اندر دکھائی دیتی ھے لیکن اس خاندان کے باھر اس کا وجود نھیں ھوتا ۔ اپنے ھم نوع افراد سے محبت کرنے کے دو پھلو ھوتے ھیں ایک پھلو تویہ ھوتا ھے کہ اپنے کو اس لائق بنائے جس کی وجہ سے دوسرے اس سے محبت کریں جب تک معاشرے کا ھر فرد اپنی نا پسند عادتوں کو ترک کرنے کی کوشش نہ کرے گا معاشرہ خوشبخت نھیں ھو سکے گا ۔ اس کے لئے ضروری ھے کہ ھم اپنے کو بدلیں اور اپنے ان عیوب سے نجات حاصل کریں جن کی وجہ سے لوگ ھم سے کتراتے ھیں ۔ اس وقت ممکن ھے کہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کو محبت کی نظر سے دیکھے، ملازم آقا سے ، آقا ملازم سے محبت کرے ۔ انسانی معاشرے کے اندر صرف عشق و محبت کے سھارے وہ نظم پیدا کیا جا سکتا ھے ۔ جو فطرت نے ھزاروں سال سے چونٹیوں اور شھد کی مکھی میں پیدا کیا ھے کہ دونوں مٹھاس پر جمع ھوتی ھیں ۔

 

جز محبت نپذیریم کہ برلوح وجود        نیست پایندہ تر از نقش محبت رقمی

 

ھم اس بات کو نھیں تسلیم کر سکتے کہ لوح وجود پر نقش محبت کے علاوہ کوئی اور چیز پایندہ تر ھو سکتی ھے ۔