تقویٰ کی حقیقت
تقویٰ کا مصدر وقایہٰ ہے، جس کے معنی ہیں حفاظت اور پرہیزگاری۔ شرعی اصطلاح میں خود کو ہر اس چیز سے روکنا جو آخرت کے لیے نقصان دہ ہو، باالفاظِ دیگر اوامر و نواہی میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا تقویٰ ہے چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے جب تقویٰ کے معنی دریافت کیے گئے تو آپ نے فرمایا :
اَنْ َ لایَفْقُدُکَ حَیْثُ اَمَرَکَ وَ َ لا یَدَاکَ حَیْثُ نَھَاکَ
(سفینة البحار جلد ۳ ص ۶۷۸)
"جہاں حکمِ خدا ہے وہاں سرِ تسلیم خم کر دو اور جہاں نہی خداوندی ہے وہاں سے دُور رہو"۔
یعنی احکامِ خداوندی کو بجا لانے والے اور اُس کی منہیات سے بچنے والے بنو اس بناء پر تقویٰ کی دو قسمیں ہیں:
اوّل اطاعتِ الٰہی حاصل کرنا اور اُس کے احکامات کو بجا لانا یعنی اس طرح کہ کوئی واجب ترک نہ ہو۔واجب امور وہ ہیں جن کے انجام نہ دینے سے پروردگارِ عالم کے غیظ وغضب کا مورد قرار پائے گا ساتھ ہی جہاں تک ممکن ہو مستحبات کو بھی ترک نہ کرے۔ مستحب وہ اعمال ہیں جن کی بجا آوری میں ثواب ہے لیکن اُن کو ترک کرنے میں عذاب نہیں۔
تقویٰ کی دوسری قسم حرام چیزوں سے بچنا اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے اُن کو ترک کرنا ہے اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اور منع کی ہوئی باتوں سے کہ جو اس کے غیظ وغضب کا موجب ہیں بچتا رہے ۔حرام بندہ کا وہ عمل ہے جس کے ارتکاب سے وہ عذابِ الٰہی کا مستوجب ٹھہرے ۔ اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ وہ مکروہات کو بھی ترک کر دے ۔مکروہ بندہ کا وہ عمل ہے جس کا نہ کرنا بہتر ہے اور ترک کرنے میں شارع مقدس کی رضا ہے۔ لیکن اس کے کرنے پر عذاب نہیں۔ وہ شخص کہ جو سعادت اور تقویٰ کے بلند مقام کا طالب ہے اُسے چاہیئے کہ تقویٰ کے دوسرے مرتبے کو جو حرام چیزوں اور گناہوں سے پرہیز کرنا ہے زیادہ اہمیت دے۔ کیونکہ اگر حرام چیزوں سے پرہیز کر لیا تو اس کا عمل کتنا ہی حقیر اور کم ہی کیوں نہ ہو بارگاہِ خداوندی میں قبول پاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَقِّیْنَ (سورہ۵ آیت ۲۷)
"خداصرف پرہیز گاروں سے (اعمال)قبول کرتا ہے "۔
اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)نے ارشاد فرمایا :
یَکْفِیْ مِنَ الدُّعَاءِ مَعَ البِرِّ مَایَکْفِیْ الطَّعَامِ مِنَ الْمِلْحِ
"دعا کی استجابت کے لیے پرہیزگار شخص کی مختصر سی دعا اس طرح سے کافی ہے جس طرح کھانے کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے تھوڑا سا نمک کافی ہے۔" (عدة الداعی)
گناہ اچھے اعمال کو ضائع کر دیتا ہے
بعض گناہانِ کبیرہ اعمالِ صالح کو نابود کر دیتے ہیں جس کی تفسیر آگے بیان کی جائے گی۔ مختصر یہ کہ گناہ سے پرہیز کرنا اچھے اعمال بجا لانے سے زیادہ اہم ہے۔