زبان کی حفاظت
زبان کو بے معنی باتوں سے محفوظ رکھو کہ فرزند آدم کی خطاؤں کا زیادہ حصہ زبان ہی سے متعلق ہے اور زبان سے زیادہ کسی عضو کے گناہ نہیں ہیں۔
٭ خاموشی حکمت کے ابواب میں سے ایک دروازہ ہے۔
٭ اپنی زبان کو ہمیشہ محفوظ رکھو اور صرف وہ بات کرو جو جنت تک پہنچا سکے۔
٭ بندۂ مومن جب تک خاموش رہتا ہے اسکا شمار نیک کرداروں میں ہوتا ہے۔
٭ جو شخص دنیا و آخرت کی سلامتی چاہتا ہے اسے چاہئے کہ خاموش رہے۔
٭ انسان منھ کے بل جہنم میں صرف اپنی زبان کی وجہ سے پھینکا جاتا ہے۔
٭ پروردگار جب کسی بندے کو نیکی دینا چاہتا ہے تو اس کی زبان محفوظ بنانے میں اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دوسروں کے عیوب کے بجائے اپنے جائزہ میں مصروف کردیتا ہے جس کا کلام کم ہوتا ہے اس کی عقل کامل اور قلب صاف ہوتا ہے اور جسکا کلام زیادہ ہوتا ہے اس کی عقل کم اور دل سخت ہوتا ہے۔
٭ انسان کا ایمان اس وقت درست ہوتا ہے جب دل درست ہوتا ہے اور دل اسی وقت درست ہوتا ہے جب زبان درست ہوتی ہے۔
٭ مومن کی زبان کو دل کے پیچھے رہنا چاہئے کہ پہلے فکر کرے پھر مناسب ہو تو کلام کرے ورنہ خاموش رہے۔ منافق کا معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے وہ صرف بکتا رہتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔
٭ خاموشی سے شرمندگی نہیں ہوتی لیکن کلام بعض اوقات دنیا اور آخرت دونوں میں شرمندہ بنا دیتا ہے۔
٭ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا رہتا ہے۔
بیٹا! پہلے تولو پھر بولو۔ بات کو عقل و معرفت کے پیمانہ پر پرکھو برائے خدا ہو تو تکلم کرو ورنہ خاموش رہو۔ بالکل خاموش رہو بلکہ گونگے بن جاؤ۔
انسان کے جسم کا ہر عضو زبان سے فریاد کرتا رہتا ہے کہ خدا کے لئے ہمیں جہنم میں نہ ڈال دینا۔
تکلم اور خاموشی کا موازنہ کیا جائے تو تکلم چاندی ہے اور سکوت سونا۔
یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی کلام سونا بن جاتا ہے اور خاموشی مٹی بن جاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب کلام فقہ، علم دین، موعظہ و نصیحت، آدابِ شریعت اور اخلاقیات سے متعلق ہو۔ بلکہ ایسے وقت میں سکوت زہر قاتل بن جاتا ہے جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ کر سکوت اختیار کیا جائے۔