آپ اپنے اماموں کو معصوم کيوں کہتے ہيں؟
شيعوں کے ائمہ جو کہ رسول (ص) کے اہل بيت ہيں ان کي عصمت پر بہت سي دليليں موجود ہيں. ہم ان ميں سے صرف ايک دليل کا يہاں پر تذکرہ کرتے ہيں:
شيعہ اور سني دانشوروں نے يہ نقل کيا ہے کہ پيغمبر خداغ– نے اپني زندگي کے آخري ايام ميں يہ ارشاد فرمايا ہے :
''اِن تارک فيکم الثقلين کتاب اللّہ و اءھل بيت و انھما لن يفترقا حتي يردا علَّ الحوض-''
ميں تمہارے درميان دو وزني چيزيں چھوڑے جارہا ہوں''کتاب خدا'' (قرآن) اور ''ميرے اہل بيت '' يہ دونوں ہرگز ايک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر ميرے پاس پہنچيں گے .
يہاں پر ايک لطيف نکتہ يہ ہے کہ : قرآن مجيد ہر قسم کے انحراف اور گمراہي سے محفوظ ہے اور يہ کيسے ممکن ہے کہ وحيِ الہي کي طرف غلطي اور خطا کي نسبت دي جائے جبکہ قرآن کو نازل کرنے والي ذات، پروردگار عالم کي ہے اور اسے لانے والا فرشتہء وحي ہے اور اسے لينے والي شخصيت پيغمبر خدا (ص) کي ہے اور ان تينوں کا معصوم ہونا آفتاب کي طرح روشن ہے اسي طرح سارے مسلمان يہ عقيدہ رکھتے ہيں کہ پيغمبر خدا (ص) وحي کے لينے، اس کي حفاظت کرنے اور اس کي تبليغ کرنے کے سلسلے ميں ہر قسم کے اشتباہ سے محفوظ تھے لھذا يہ بھي واضح ہوجاتا ہے کہ جب کتاب خدا اس پائيدار اور محکم عصمت کے حصار ميں ہے تو رسول خدا (ص) کے اہل بيت بھي ہر قسم کي لغزش اور خطا سے محفوظ ہيں کيونکہ حديث ثقلين ميں پيغمبر خدا (ص) نے اپني عترت کو امت کي ہدايت اور رہبري کے اعتبار سے قرآن مجيد کا ہم رتبہ اور ہم پلہ قرار ديا ہے.اور چونکہ عترت پيغمبر (ص) اور قرآن مجيد ايک دوسرے کے ہم پلہ ہيں لہذا يہ دونوں عصمت کے لحاظ سے بھي ايک جيسے ہيں دوسرے لفظوں ميں يہ کہا جائے کہ غير معصوم فرد يا افراد کو قرآن مجيد کا ہم پلہ قراردينے کي کوئي وجہ نہ تھي.
اسي طرح ائمہ معصومين کي عصمت کے سلسلے ميں واضح ترين گواہ پيغمبر اکرم (ص) کا يہ جملہ ہے:
'' لن يفترقا حتي يردا علّ الحوض.''
يہ دو ہرگز (ہدايت اور رہبري ميں) ايک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آمليں گے.
اگر پيغمبرخدا (ص) کے اہل بيت ہر قسم کي لغزشوں سے محفوظ نہ ہوں اور ان کے لئے بعض کاموں ميں خطا کا امکان پايا جاتا ہو تو وہ قرآن مجيد سے جدا ہوکر (معاذاللہ) گمراہي کے راستے پر چل پڑيں گے . کيونکہ قرآن مجيد ميں خطا اور غلطي کا امکان نہيں ہے ليکن رسول خدا (ص) نے انتہائي شدت کے ساتھ اس فرضيہ کي نفي فرمائي ہے.
البتہ يہ نکتہ واضح رہے کہ اس حديث ميں لفظ اہل بيت سے آنحضرت (ص) کي مراد آپ (ص) کے تمام نسبي اور سببي رشتہ دار نہيں ہيں کيونکہ اس بات ميں شک نہيں ہے کہ وہ سب کے سب لغزشوں سے محفوظ نہيں تھے.
لہذا آنحضرت (ص) کي عترت ميں سے صرف ايک خاص گروہ اس قسم کے افتخار سے سرفراز تھا اور يہ قدر ومنزلت صرف کچھ گنے چنے افراد کے لئے تھي اور يہ افراد وہي ائمہ اہل بيت ہيں جو ہر زمانے ميں امت کو راہ دکھانے والے، سنت پيغمبر (ص) کے محافظ اور آنحضرت (ص) کي شريعت کے پاسبان تھے-
بشکریہ الحسنین ڈاٹ کام
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
عباسيوں کے دور ميں تشيع کي عددي افزودگي توجہ طلب ہے