آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 8
لفظ رکوع بھي اس قاعدے سے مستثني نہيں ہے اور ہم قرآن مجيد ميں جہاں بھي اس لفظ کا سامنا کرتے ہيں، ابتداء ميں اس کے لغوي معني کو مدنظر رکھتے ہيں- مثال کے طور پر جہاں نماز اور نمازگزاروں کي بحث ہوتي ہے چونکہ نماز قرينہ اور دليل ہے لہذا اس سے اصطلاحي معني مراد ہيں اور اگر کوئي اور قرينہ اور دليل ہو تو اس کے مجازي معني کو مدنظر رکھا جائے گا- اس آيت ميں بھي چونکہ آيت کے آغاز ميں نماز کي بات ہورہي ہے (يقيمون الصلوة) لہذا رکوع سے مراد وہي اصطلاحي معني ہيں جو نماز کے خاص عمل سے عبارت ہے- (5)
ابتداء ميں اشارہ ہوا کہ ولي کے تين معاني ہيں: 1- دوست، 2- ناصر و مددگار اور 3- سرپرست؛ اور ہم يہاں اول الذکر دو معاني (دوست اور ناصر و مددگار) کا جائزہ ليتے ہيں اور بعد ميں مؤخرالذکر اور سب سے بہتر اور مناسب معني (سرپرست اور حاکم) تک رسائي حاصل کريں-
1- دوست 2- ناصر (مددگار)
ان دو معاني کے پيش نظر آيت کا ترجمہ يوں ہوگا:
"تمہارا دوست يا ناصر و مددگار صرف خدا، اس کا پيغمبر اور وہ لوگ ہيں جو ايمان لائے وہي جو نماز کے رکوع ميں زکواة ديتے ہيں"-
ہم نے کہا کہ لفظِ "انما" حصر کے لئے استعمال ہوتا ہے- پس آيت کي ابتداء ميں لفظ انّما کے استعمال کے بموجب آيت کا مفہوم يہ ہے کہ "ہمارے دوست اور يار و مددگار صرف اللہ، رسول اور رکوع کي حالت ميں خيرات و صدقہ دينے والے ہيں لہذا ہمارا کوئي بھي اور دوست يا ناصر و مددگار نہيں ہونا چاہئے؛ اور مثال کے طور پر اللہ اور اس کے رسول (ع) کے بعد کسي ايسے شخص سے دوستي کا تصور ہي نہيں کرنا چاہئے جس نے حالت رکوع ميں زکواة نہ دي ہو اور اس کے بعد کسي کو بھي دوست و ناصر نہيں سمجھنا چاہئے-