آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 5
بالفاظ ديگر آيت کے نزول کے وقت انما کا لفظ لاکر صرف تين ہستيوں کو مؤمنين کے لئے ولي قرار ديا گيا ہے پس اس آيت کے معني کو يوں ہونا چاہئے: "تمہارا "ولي" اور حاکم و سر پرست بس "صرف اور صرف" اللہ ہے اور اس کا پيغمبر ہيں اور وہي لوگ جو ايمان رکھتے ہيں، نماز ادا کرتے ہيں اور حالت رکوع ميں خيرات و زكواة ديتے ہيں"-
انما کے بارے ميں تفصيل:
عربي زبان ميں ايک مفہوم بيان کرنے کے لئے بناوٹ اور ڈھانچے کے حوالے سے دو قسم کے جملے بروئے کار لائے جاسکتے ہيں؛ جملۂ اسميہ اور جملۂ فعليہ- جملۂ اسميہ وہ جملہ ہے جو "اسم" سے شروع ہوتا ہے اور جملۂ فعليہ وہ ہے جو فعل سے شروع ہوتا ہے- جملہ کي مختلف قسميں ہيں اور اس کي ہر قسم کے بعض اصلي اور بنيادي اصول اور ارکان ہوتے ہيں جن کے وسيلے سے جملہ معني کے لحاظ سے مکمل ہوجاتا ہے اور اگر اس جملے کا ايک حصہ حذف کيا جائے تو وہ جملہ معني کے لحاظ سے ناقص اور نامکمل رہے گا-
بولنے والا کلام سے اپنے مقصد کو مد نظر رکھ کر ان ارکان کو اپنے جملے کے مختلف حصوں ميں بروئے کار لاسکتا ہے اور ان کے استعمال کي ترتيب بدل سکتا ہے-
انما کا لفظ جملۂ اسميہ اور جملۂ فعليہ پر وارد ہوسکتا ہے اور اپنا مدعا جملے کے آخري رکن يا اس (انما) کے بعد اور دوسرے ارکان سے قبل آنے والے رکن ميں محصور کرديتا ہے- اب بحث کو زيادہ روشن اور قابل فہم بنانے کے لئے ايک مثال لاتے ہيں؛ فرض کريں کہ ايک آدمي کھڑا ہے جس کا نام "محمد" ہے؛ ہم يہ بات دو مختلف صورتوں ميں بيان کرسکتے ہيں:
1- يہ جو شخص کھڑا ہے يہ محمد ہے-
2- محمد کھڑا ہے-