آج کے دور کا مسلم نوجوان اور ذمہ دارياں ( حصّہ دوازدھم)
مکہ ميں فحاشي، عرياني، ناچ گانے، قصے کہانيوں ‘ داستانوں، نقالي اور اداکاري جيسے مکروہ دجالي منصوبے کے ذريعے دين اسلام کي دعوت کي راہ ميں شديد رکاوٹيں کھڑي کرنے والا منصوبہ ساز، لہو الحديث کا ماہر فنکار نضر بن حارث؛ کچھ عرصہ بعد غزوہ بدر ميں کئي دوسرے کفار مکہ کے ساتھ گرفتار ہُوا- اس عہد کے رواج کے خلاف سرکار مدينہ رحمتہ للعالمين صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اسيرانِ جنگ کے ساتھ بہت رحمدلانہ اور نيک سلوک کيا- ان ميں اکثر کو فديہ لے کر چھوڑ ديا- جن کے پاس فديہ ادا کرنے کے ليے رقم نہ تھي، ان کو محض آئندہ مسلمانوں کے خلاف جنگ نہ کرنے کے وعدے پر رہا کر ديا- اورپڑھے لکھے قيديوں کو مسلمان بچوں کو تعليم دينے کے عوض رہا فرما ديا ليکن لہو الحديث کے ماہر، نضر بن حارث کومعاف نہيں کيا گيا- اور اس کو موت کي سزا دي گئي- وجہ صاف ظاہر ہے کہ نضر بن حارث کا ’’فن‘‘پوري عالم انسانيت کي گمراہي اور تباہي کا موجب تھا- دنيا ميں انسانيت کي تباہي کا شايد ہي اس سے زيادہ کوئي اور بھيانک کام بھي ممکن ہو-
نضر بن حارث کي روحاني اولاد کو ملک عزيز ميں حکومتي سر پرستي، دين مخالف عناصر اور علمائے سُو کي بے حسي کي وجہ سے ايسا مناسب ماحول ميسر ہے کہ وہ اس ’’فن ‘‘ کي بڑي تيزي سے نشو ونماکر رہي ہے، وہ پھولي پھلتي جا رہي ہے اورنوجوان نسل اور تہذيبِ انساني کو تباہ کررہي ہے- پاکستان کي تنزلي، بربادي اور تباہي ميں لہوالحديث کي فنکاري اور پُرکاري کا کردار سب تباہيوں سے بڑھ کر ہے- علامہ اقبال مفکر پاکستان اور اہل درد حضرات بار بار مسلمانوں سے کہتے رہے، ليکن بے سود؛ کيونکہ آج کا حکمران ٹولہ بيروني اشارے پر خود لہو الحديث کا سب سے بڑا سر پرست اور پر چارک ہے : -
حريم تيرا‘ خودي غير کي‘ معاذ اللہ دوبارہ زندہ نہ کر‘ کاروبارِ لات و منات
يہي کمال ہے تمثيل کا کہ تو نہ رہے رہا نہ تو تو نہ سوزِ خودي نہ ساز حيات!
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان