• صارفین کی تعداد :
  • 2874
  • 8/29/2011
  • تاريخ :

اسلام ميں تعليم نسوان پرتاکيد (حصّہ سوّم)

حجاب والی خاتون

آيت پردہ کا مطالعہ کريں:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (النور، 24: 31)

اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپني نظريں نيچي رکھا کريں اور اپني شرم گاہوں کي حفاظت کريں اور اپني زينت و آرائش کي نمائش نہ کريں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس ميں کھلا ہي رہتا ہے-

اس ميں منع زينت کے اظہار سے کيا گيا ہے- اور زينت کے اظہار سے مراد ہے بناؤ سنگھار کا اظہار کرنا- دوسرا يہ کہاگيا کہ جب گھر سے نکليں تو چادر اوڑھ لياکريں تاکہ باہر دوسري فطرت کي عورتوں ميں مومنات کا امتياز نظر آئے- سورۃ الاحزاب ميں امہات المومنين اور خانوادۂ نبوت کي خواتين کو خطاب کے ذريعے تعليم امت کے ليے حکم فرمايا:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا َّحِيمًا O ’’

اے نبي! اپني بيويوں اور اپني صاحبزاديوں اور مسلمانوں کي عورتوں سے فرماديں کہ (باہر نکلتے وقت) اپني چادريں اپنے اوپر اوڑھ ليا کريں، يہ اس بات کے قريب تر ہے کہ وہ پہچان لي جائيں (کہ يہ پاک دامن آزاد عورتيں ہيں) پھر انہيں (آوارہ باندياں سمجھ کر غلطي سے) ايذاء نہ دي جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے‘

لہٰذا احکام پردہ خود خواتين کے گھر سے باہر نکلنے کي سب سے بڑي دليل ہے- دوسرا اگر خواتين کا گھر سے نکلنا ممنوع ہوتا تو حضور ا کے ساتھ آپ کي ازواج مطہرات غزوہ بدر ميں کيوں شريک ہوئيں- آپ درج ذيل احاديث کا مطالعہ کريں تو واضح ہو جائے گا کہ دور رسالت ا ميں خواتين کن معمولات ميں شريک ہوئيں-

’’حضرت انس نے فرمايا: جب جنگ احد ميں لوگ حضور نبي اکرم ا سے دور ہو گئے تو ميں نے حضرت عائشہ بنت ابي بکر اور حضرت ام سليم کو ديکھا کہ دونوں نے اپنے دامن سميٹے ہوئے ہيں - دونوں اپني پيٹھ پر پاني کي مشکيں لاتيں اور پياسے مسلمانوں کو پلاتي تھيں، پھر لوٹ جاتيں اور مشکيزے بھر کر لاتيں اور پياسے مسلمانوں کو پلاتيں-‘‘ (صحيح بخاري، کتاب الجھاد والسير، 3: 1055، رقم: 2724)

’’حضرت ام عطيہ فرماتي ہيں: ميں نے رسول اï·² ا کے ساتھ سات جہاد کيے، ميں غازيوں کي منزلوں ميں ان کے پيچھے رہتي تھي، ان کے لئے کھانا پکاتي اور زخميوں کي مرہم پٹي کرتي تھي اور بيماروں کے علاج کا انتظام کرتي تھي-‘‘ (صحيح مسلم، کتاب الجہاد و السير، 3: 1447، رقم: 1812)

اور يہ معمول دور رسالت کے بعد خلافت راشدہ ميں بھي جاري رہا جيسے دور فاروقي ميں خواتين پارليمنٹ (مجلس شوريٰ) کي رکن تھيں- (مصنف عبد الرزاق، 6: 180، رقم: 10420)- اور سيدنا عثمان غني ص کے دور ميں خواتين کو دوسرے ممالک ميں سفير نام زد کيا گيا- (تاريخ طبري، 2: 601)

اسي طرح تاريخ اسلام ميں بے شمار ايسي خواتين کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے علم التفسير، علم الحديث ، علم الفقہ، علم لغت و نحو، علم طب، شاعري ، کتابت، و غيرہ ميں منفرد مقام حاصل کيا- (بحوالہ ’’اسلام ميں خواتين کے حقوق‘‘ از شيخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادري)

لہٰذا عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندي کا فلسفہ و فکر ہي مزاجاً اسلامي نہيں- يہ کسي علاقے کي روايت و رسم تو ہو سکتي ہے مگر اس کا اسلام سے کوئي تعلق نہيں-

اب اس اعتراض کا ايک اور انداز سے بھي جائزہ ليں- اگر بالفرض معاشرہ ايسا ہے کہ پردہ کے جملہ لوازمات پورے نہيں ہوتے اور اسلامي پردہ ممکن ہي نہ ہو تو پھر دو احکام کا تقابلي جائزہ ليا جائے گا- پردہ کا حکم قرآن حکيم ميں دو مقامات پر آيا ہے اور حصول علم کا بالواسطہ يا بلاواسطہ طور پر کم و بيش پانچ سو بار آيا ہے- اب خدانخواستہ حالات ايسے ہيں کہ خواتين کو مکمل شرعي پردے اور تعليم ميں سے کسي ايک کا انتخاب کرنا پڑے تو بھلا کس کا انتخاب کيا جائے گا؟ ظاہر ہے اپني عفت و عصمت کي حفاظت کے تمام تقاضوں کي تکميل کرتے ہوئے اس حکم کا انتخاب کرنا پڑے گا جس کي اہميت اللہ تعاليٰ نے زيادہ بيان کي ہے، نہ کہ اس کي جس کي اہميت کسي نام نہاد ملا کے نزديک زيادہ ہے-

لہٰذا پردہ کا بہانہ بناکر خواتين کي تعليم پر پابندي لگانا خلاف اسلام ہے اور قرآن و سنت کي تعليمات اس کي اجازت ہر گز نہيں ديتيں- فرضيت علم کے ليے مرد و خواتين ميں کوئي امتياز اسلام نے قائم نہيں کيا- آخر ميں اسي اہم مسئلہ کي طرف ميں اہل علم کي توجہ مبذول کروانا ضروري سمجھتا ہوں کہ حصول علم فرض عين ہے اور يہ قرآن و حديث سے ثابت ہے- اس امر پر بھي اسلام کے جملہ مسالک و مذاہب متفق ہيں کہ کسي فرض کا صريح انکار کفر ہے- لہٰذا اگر کوئي شخص آج کے دور ميں خواتين کي تعليم کو حرام سمجھتاہے چاہے اس کي تاويل کوئي بھي کرے تو ايک فرض کا صريح انکار ہے- لہٰذا اس طرح کے بے بنياد فتوے ، جس سے پوري دنيا ميں اسلام کي جگ ہنسائي ہو، اسلام کے روشن چہرے کو داغ دار کياجائے اور من گھڑت تصور اسلام عام کيا جاتا ہو، کي بھرپور حوصلہ شکني ہوني چاہيے اور تمام علماء کو اس کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کرنا چاہيے تاکہ اسلام کو بدنام کرنے والے اس طرح کے مذموم عناصر کو لگام دي جا سکے-

تحرير: ڈاکٹر رحيق عباسي


متعلقہ تحريريں :

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ چہارم )

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ سوّم )

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ دوّم )

شريک حيات کے حقوق ( حصّہ دوّم )

خواتين کا اسلامي تشخص اور اُس کے تقاضے