• صارفین کی تعداد :
  • 2258
  • 3/6/2011
  • تاريخ :

امام کے بارے میں وضاحت (حصّہ پنجم)

بسم الله الرحمن الرحیم

لیکن یہ فلسفہ تراشی خود غرضی اور هوا وهوس کی دین ھے اور نہ ھی معترض نے موضوع میں غور وفکر کیا ھے۔ ان اعتراضات کو ختم کرنے کے لئے درج ذیل امور رپر توجہ کرنا:

۱۔ اعلان ولایت سے قبل آیہ بلّغ کا نازل هونا چنانچہ مورخین ومفسرین نے روایت کی ھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری حج سے واپس آ رھے تھے تو اس وقت خداوندعالم نے وحی فرمائی:

<یَاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ>

”اے رسول جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ھے پهونچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو) تم نے اس کا کوئی پیغام ھی نھیں پهونچایا اور (تم ڈرو نھیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“

۲۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا اعلان ولایت کے لئے جنگل میں ظھر کے وقت کا انتخاب کرنا۔

۳۔کلام پیغمبر میں تینوں ولایت کا ذکر هونا:

          الف: اللّٰہ مولای۔

          اللہ میرا مولا ھے۔

          ب: انامولی المومنین۔

          میں مومنین کا مولا هوں۔     

ج: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ۔

جس کا میں مولا هوں اس کے یہ علی (ع)بھی مولا ھیں۔

۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حضرت علی علیہ السلام کے لئے دعا کرنا:

”اللّٰھمّ وال من والاہ وعاد من عاداہ واخذل من خذلہ وادرالحق معہ حیث دار۔

پروردگارا  ! تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے اور ذلیل کر اس کو جو علی کو ذلیل کرنا چاھے، اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی جائیں ۔

جبکہ اس دعا میں ولایت کے معنی بغیر حاکم کے مکمل نھیں هوسکتے ھیں

۵۔ آیہ اکمال کا نازل هونا:  الیوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔

 جو اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ یہ ایک اھم مسئلہ تھا جس وجہ سے خداوندعالم نے دین کو کامل کیا اور نعمتیں تمام کیں۔

۶۔ حاضرین غدیر خم کا حضرت علی علیہ السلام کا مذکورہ الفاظ میں مبارک باد پیش کرنا۔

مذکورہ چھ نکات میں غور وفکر کرنے سے انسان کو یہ یقین هوجاتا ھے کہ مسلمانوں کی نظر میں حضرت علی (ع) رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وراث ،ناصر ،دوست اور ابن عم نھیں ھیں اور نہ ھی ارث ونصرت کا مسئلہ ھے اور اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان باتوں کا قصد کرتے توپھر غدیر کے ماحول اور ان آیات جن کو خدا نے اس موقع پر نازل فرمایا اور تبریک وتہنیت کے لئے ایسے الفاظ کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اگر لفظ مولا سے مراد امامت وخلافت نہ هو تو پھر ان سب چیزوں کا وجود کوئی معنی نھیں رکھتا۔

اور جیسا کہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی نے حقیقت کا انکشاف کیا ھے اور جو لوگ اس حدیث کا انکار کرتے ھیں ان کے لئے بہترین جواب دیا ھے، چنانچہ موصوف کہتے ھیں:

”چونکہ اھل ظاھر(حنبلیوں) اور سلفیوں( وھابیوں)کے نزدیک معاویہ سے محبت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نھیں تھا لہٰذا اس سے محبت کرنا ھی اپنا شعار بنا رکھا ، اسی وجہ سے انھوں نے مذکورہ حدیث کے معنی اس لحاظ سے کئے تاکہ علی کی محبت کو ترک کرنے میں کوئی مضائقہ پیش نہ آئے۔

 مذکورہ باتوں سے یہ بات ثابت هوجاتی ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی امت کی قیادت ورھبری کے لئے امام کی معرفی کی ھے۔

اور مذکورہ حدیث (اگرچہ اس کے الفاظ اورمناسبت مختلف ھیں) امامت کے بارے میں صاف اور روشن ھے جو مکمل طریقہ سے ھمارے مقصود پر دلالت کرتی ھے۔

لیکن اب سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ کیا فقط امام اول کا معین هوجانا کافی ھے اور باقی ائمہ علیھم السلام کے بارے میں تعیین کی ضرورت نھیں ھے یا ان کے لئے بھی نص اور احادیث کا هونا ضروری ھے؟

یعنی باقی ائمہ  (ع) کی امامت کیسے ثابت هوگی؟ اور ان کو بارہ کے عدد میں محدود کرنا (نہ کم وزیاد) کیسے صحیح ھے؟

بشکریہ صادقین ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

امام کے بارے میں وضاحت

امامت کے عام معنی (حصّہ دهم)

امامت کے عام معنی (حصّہ نهم)

امامت کے عام معنی (حصّہ هشتم)

امامت کے عام معنی (حصّہ هفتم)