• صارفین کی تعداد :
  • 3905
  • 11/9/2010
  • تاريخ :

اسلام میں تعلیم نسوان پر تاکید (حصّہ سوّم)

مسلمان خاتون

ایک مغالطہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ عورتوں اور بچیوں کا مردوں سے پڑھنا ناجائز ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بچیوں کے لیے خواتین اساتذہ کاہی انتظام ہو مگر ایسا نظام نہ ہونے کی صورت میں مردوں کا باپردہ ماحول میں عورتوں کو پڑھانا بھی از روئے شرع منع نہیں ہے۔ چونکہ حضور ا خواتین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے تھے، مسجد نبوی میں ہفتے کا ایک دن خواتین کے لئے مخصوص کرنے کا ذکر بھی ملتاہے۔

(صحیح بخاری، کتاب العلم، ۱: ۵۰، رقم: ۱۰۱)

بعض لوگ احکام پردہ کا بہانہ بنا کر عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کے مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ گھر سے باہر ہر طرف مرد ہوتے ہیں، لہٰذا پردہ قائم نہیں رہتا۔ سب سے پہلے تو یہ عذر انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اگر بچیاں تعلیم کے لیے باہر نہیں نکل سکتیں تو ان کا کسی مقصد کے لیے بھی باہر نکلنا جائز نہ ہوا۔ ایسے لوگوں کی نظر میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا ہی ممنوع ہے۔ حالاں کہ اسلامی شریعت و تاریخ میں اس کے اثبات میں کوئی حکم نہیں ملتا۔ خود آیت پردہ ہی اس بات پر دلیل ہے کہ اسلامی پردہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے ہی ہے۔ گھروں میں بیٹھے رہنے سے احکام پردہ لاگو نہیں ہوتے کیونکہ پردہ غیر محرموں سے ہوتاہے اور گھر میں تو عموماً محرم ہی ہوتے ہیں۔ آیت پردہ کا مطالعہ کریں:

’’اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔‘‘

اس میں منع زینت کے اظہار سے کیا گیا ہے۔ اور زینت کے اظہار سے مراد ہے بناؤ سنگھار کا اظہار کرنا۔ دوسرا یہ کہاگیا کہ جب گھر سے نکلیں تو چادر اوڑھ لیاکریں تاکہ باہر دوسری فطرت کی عورتوں میں مومنات کا امتیاز نظر آئے۔ سورۃ الاحزاب میں امہات المومنین اور خانوادۂ نبوت کی خواتین کو خطاب کے ذریعے تعلیم امت کے لیے حکم فرمایا:

’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے‘‘

لہٰذا احکام پردہ خود خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ دوسرا اگر خواتین کا گھر سے نکلنا ممنوع ہوتا تو حضور ا کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات غزوہ بدر میں کیوں شریک ہوئیں۔ آپ درج ذیل احادیث کا مطالعہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ دور رسالت ا میں خواتین کن معمولات میں شریک ہوئیں۔

’’حضرت انس نے فرمایا: جب جنگ احد میں لوگ حضور نبی اکرم ا سے دور ہو گئے تو میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور حضرت ام سلیم کو دیکھا کہ دونوں نے اپنے دامن سمیٹے ہوئے ہیں ۔ دونوں اپنی پیٹھ پر پانی کی مشکیں لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتی تھیں، پھر لوٹ جاتیں اور مشکیزے بھر کر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتیں۔‘‘

(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر، ۳: ۱۰۵۵، رقم: ۲۷۲۴)

’’حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں: میں نے رسول اﷲ ا کے ساتھ سات جہاد کیے، میں غازیوں کی منزلوں میں ان کے پیچھے رہتی تھی، ان کے لئے کھانا پکاتی اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور بیماروں کے علاج کا انتظام کرتی تھی۔‘‘

(صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر، ۳: ۱۴۴۷، رقم: ۱۸۱۲)

اور یہ معمول دور رسالت کے بعد خلافت راشدہ میں بھی جاری رہا جیسے دور فاروقی میں خواتین پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) کی رکن تھیں۔ (مصنف عبد الرزاق، ۶: ۱۸۰، رقم: ۱۰۴۲۰)۔ اور سیدنا عثمان غنی ص کے دور میں خواتین کو دوسرے ممالک میں سفیر نام زد کیا گیا۔

(تاریخ طبری، ۲: ۶۰۱)

اسی طرح تاریخ اسلام میں بے شمار ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے علم التفسیر، علم الحدیث ، علم الفقہ، علم لغت و نحو، علم طب، شاعری ، کتابت، وغیرہ میں منفرد مقام حاصل کیا۔

(بحوالہ ’’اسلام میں خواتین کے حقوق‘‘ از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)

لہٰذا عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی کا فلسفہ و فکر ہی مزاجاً اسلامی نہیں۔ یہ کسی علاقے کی روایت و رسم تو ہو سکتی ہے مگر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

اب اس اعتراض کا ایک اور انداز سے بھی جائزہ لیں۔ اگر بالفرض معاشرہ ایسا ہے کہ پردہ کے جملہ لوازمات پورے نہیں ہوتے اور اسلامی پردہ ممکن ہی نہ ہو تو پھر دو احکام کا تقابلی جائزہ لیاجائے گا۔ پردہ کا حکم قرآن حکیم میں دو مقامات پر آیا ہے اور حصول علم کا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کم و بیش پانچ سو بار آیا ہے۔ اب خدانخواستہ حالات ایسے ہیں کہ خواتین کو مکمل شرعی پردے اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو بھلا کس کا انتخاب کیاجائے گا؟ ظاہر ہے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کے تمام تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے اس حکم کا انتخاب کرنا پڑے گا جس کی اہمیت اللہ تعالیٰ نے زیادہ بیان کی ہے، نہ کہ اس کی جس کی اہمیت کسی نام نہاد ملا کے نزدیک زیادہ ہے۔

لہٰذا پردہ کا بہانہ بناکر خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانا خلاف اسلام ہے اور قرآن و سنت کی تعلیمات اس کی اجازت ہر گز نہیں دیتیں۔ فرضیت علم کے لیے مرد و خواتین میں کوئی امتیاز اسلام نے قائم نہیں کیا۔ آخر میں اسی اہم مسئلہ کی طرف میں اہل علم کی توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حصول علم فرض عین ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اس امر پر بھی اسلام کے جملہ مسالک و مذاہب متفق ہیں کہ کسی فرض کا صریح انکار کفر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص آج کے دور میں خواتین کی تعلیم کو حرام سمجھتاہے چاہے اس کی تاویل کوئی بھی کرے تو ایک فرض کا صریح انکار ہے۔ لہٰذا اس طرح کے بے بنیاد فتوے ، جس سے پوری دنیا میں اسلام کی جگ ہنسائی ہو، اسلام کے روشن چہرے کو داغ دار کیاجائے اور من گھڑت تصور اسلام عام کیا جاتا ہو، کی بھرپور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور تمام علماء کو اس کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کرنا چاہیے تاکہ اسلام کو بدنام کرنے والے اس طرح کے مذموم عناصر کو لگام دی جاسکے۔

بشکریہ : ڈاکٹر رحیق عباسی


متعلقہ تحریریں :

اہل مغرب کي ايک ظاہري خوبصورتي مگر درحقيقت؟!

خواتين کے بارے ميں اسلام کي واضح، جامع اور کامل نظر

خواتين سے متعلق روايات ميں ظالمانہ فکر و عمل سے مقابلہ

خواتين سے متعلق صحيح اور غلط نظريات

خواتين کے بارے ميں تين قسم کي گفتگو اوراُن کے اثرات

ماں کی عظمت میں شاعری

شوہر داري يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال

ماں باپ كى ذمہ داري

لیڈی ہیلتھ ورکر کے مفید مشورے

بچوں کی بات سننے میں ہمیشہ پہل کریں اور انہیں اہمیت دیں