دين کي طرف رغبت کے اسباب
دين ايک ايسي حقيقت ھے جس کي تاريخ، بشريت کي تاريخ کے ساتھ ساتھ رواں دواں ھے۔ اس واضح اور آشکار حقيقت کے با وجود ايسے افراد بھي گزرے ھيں جودين کے منکر رھے ھيں۔ خدا پر اعتقاد اور اس کي پرستش، مبداٴ ھستي کے عنوان سے ھرزمان و مکان ميں تمام بشري معاشروں ميں مختلف تھذيب و فرھنگ کے ساتھ ساتھ مختلف شکل و صورت ميں موجود رھي ھے اور ھے۔
اس ناقابل انکار حقيقت نے ايسے لوگوں کو جو دين کي حقانيت کے قائل نھيں ھيں اور ديني عقائد کو باطل شمار کرتے ھيں، اس بات پر مجبور کرديا ھے کہ وہ ابتدائے تاريخ بشريت سے اب تک لوگوں کے دين پر اعتقاد اور يقين کي توجيہ کريں اور اپنے اعتبار سے اس کے لئے (باطل) دلائل پيش کريں اور يہ بتائيں کہ کيوں بشر دين کي طرف راغب ھوتا ھے؟ حقيقت تو يہ ھے کہ ايسے اشخاص کے نزديک جو اس کائنات کے خالق يعني خدا کو نھيں پھچانتے ھيں، انسانيت کے اس عظيم کارواں کااپنے خالق پر اعتقاد و يقين اور اس کي پرستش نھايت وحشت ناک اور خوفناک ھوتي ھے اور اسي لئے وہ کسي نہ کسي طرح اس کي توجيہ اور تاويل کرکے اپنا دامن جھاڑنا چاھتے ھيں۔
اس بارے ميں جو نظريات بيان ھوئے ھيں وہ کبھي کبھي تو اتنے بے بنياد اور باطل ھوتے ھيں کہ عقل متعجب ھوکر رہ جاتي ھے ۔ ان نظريات ميں سے بعض نظريات کي وضاحت مندرجہ ذيل ھے:
(۱ ) نظريہٴ خوف
فرائڈ (SIGMOND FREUD) نے خدا اور دين پر اعتقاد و يقين کا سرچشمہ خوف کو بتايا ھے البتہ اس سے قبل بھي يہ نظريہ پايا گيا ھے۔ شايد سب سے پھلے جس شخص نے يہ نظريہ پيش کيا تھا روم کا مشھور شاعر ٹيٹوس لوکر ٹيس ( متوفي : ۹۹ ءء ) ھے ۔ اس کا قول تھا کہ خوف ھي تھاکہ جس نے خداؤں کو پيدا کيا ھے۔
بھرحال يہ وہ نظريہ ھے کہ جس کي رو سے طبيعي اسباب مثلاً سيلاب ، طوفان، زلزلہ، بيمار ي و موت اس بات کے موجب ھوگئے ھيں کہ انسان ان تمام خوف آور طبيعي اسباب کو مشترکہ طور پر خدا کا نام دے دے۔ فرائڈ کے مطابق خدا، انسان کي خلق کردہ مخلوق ھے نہ کہ اس کا خالق۔ فرائڈ کے بقول درحقيقت بشري ذھن ميں ديني عقائد پر اعتقاد و ايمان ان اسباب کے نقصانات اور ضرر سے محفوظ رھنے کي خواھش کي بنا پر پيداھوتا ھے۔ زمانہٴ اول کا بشر ان اسباب کے نقصانات اور اثرات کے خوف اور ڈر سے آھستہ آھستہ ايک ايسي صاحب قدرت ھستي کا قائل ھوگيا جو اس کے اعتبار سے ان تمام اسباب پر غالب اور مسلط تھي تاکہ اس طرح اس عظيم اور قادر ھستي کے حضور دعا، مناجات،قرباني، عبادت وغيرہ کرکے اس ھستي کي محبت و لطف کو ابھارے اورنتيجةً خود کو ان خطرات سے محفوظ کرلے۔
(۲)نظريہٴ جہالت
ويل ڈورانٹ (WILL DURANT) اور برٹرانڈرسل(BERTRAND RUSSELL) کي مانند بعض افراد اس نظريے کے قائل ھيں کہ شروعاتي زمانے کے انسانوں نے جھالت اور لاعلمي کي بنا پر اپنے اندر خدا اور دين پراعتقاد پيدا کرليا تھا۔ يہ جاھل انسان جب چاند گرھن، سورج گرھن، آندھي اور بارش وغيرہ جيسے قدرتي واقعات وحادثات سے روبرو ھوتا تھا اور ان جيسے واقعات کي کوئي طبيعي اور ظاھري علت تلاش نھيں پاتا تھا تو لا محالہ ايک فرضي علت تلاش کرليتا تھا اور اس علت کا نام ”خدا“ رکھ ديتا تھااور پھر مذکورہ تمام حادثات کو اس خدا سے منسوب کرديتا تھا۔خدا انسان پر اپنا عذاب نازل نہ کرے اور اسے زميني اور آسماني بلاؤں ميں گرفتار نہ کرے لھذا وہ خدا کے سامنے خضوع و خشوع کے ساتھ سربسجود ھوجاتا تھا۔
مذکورہ دو نظر يوں پر تبصرہ
۱) يہ دونوں نظريے فرضي اور احتمالي ھيں اور ان کے تاريخي اثبات و ثبوت پر کوئي دليل موجود نھيں ھے۔
۲) اگر اس فرض کو تسليم کربھي ليا جائے کہ تمام يا بعض انسان خوف يا جھالت کي بناپر خدا کو باور کرليا کرتے تھے اور اس کي پرستش کرتے تھے تب بھي منطقي لحاظ سے يہ نيتحہ اخذ نھيں کيا جاسکتا کہ ”خدا موجود نھيں ھے اور تمام اديان باطل اور لغو ھيں“ اگر فرض بھي کرليا جائے کہ يہ تمام نظريات صحيح ھيں توصرف اتنا ھي ثابت ھوتا ھے کہ دين اور خدا پر بشر کا اعتقاد و يقين غلط روش اورطريقے پر مبني ھے اور يہ غير از نفي وجود خدا اور نفي حقانيت دين ھے۔
مثلاً، تاريخ بشريت ميں ايسے نہ جانے کتنے اختراعات و اکتشافات پائے جاتے ھيں جو شھرت طلبي، ثروت طلبي يا عزت و مقام طلبي کي بنياد پر وجود ميں آئے ھيںجو يقينا غير اخلاقي اور غير صحيح افکار و اقدام تھے ليکن اس کا مطلب يہ نھيں ھے کہ غير اخلاقي افکار کي بنياد پر وجود ميںآنے والے علمي اختراعات و اکتشافات بھي غلط يا باطل قرار پا جائيں گے ۔
مختصراً يوں بھي کہا جاسکتا ھے کہ ان نظريات ميں کسي فعل کو انجام دينے کا ”جذبہ“ اور اس فعل کا ”حصول‘ مخلوط ھوگئے ھيں يعني ايک شےٴ کے باطل ھونے کودوسري کا باطل ھونا فرض کرليا گيا ھے۔
۳) ايسے بھت سے حقائق ھيں جو ان دونوں مذکورہ نظريات کے برخلاف گفتگو کرتے نظر آتے ھيں مثلاً :
اولاً: تاريخ گواہ ھے کہ دين کو انسان تک پھونچانے والے اور بشر کو خدا کي طرف دعوت دينے والے پيغمبر ھميشہ دلير اور شجاع ترين افرادھوا کرتے تھے اور سخت ترين حالات اور مشکلات سے بھي ھنس کھيل کر گزرجاتے تھے۔
ثانياً: نہ جانے کتنے ايسے ڈر پوک اور بزدل افراد گزرے ھيں جو خدا پر ذرہ برابر اعتقاد نھيں رکھتے تھے اور آج بھي ايسے افراد ديکھے جا سکتے ھيں۔
ثالثاً: اگر خدا پر يقين و اعتقاد کي بنياد طبيعي حادثات و واقعات ھيں تب تو موجودہ دور ميں خدا پر ايمان باطل ،ختم يا کم از کم قليل ھو جانا چاھئے کيونکہ آج انسان بھت سے طبيعي حادثات و واقعات پر غلبہ حاصل کرچکا ھے۔ اس کے بر خلاف آج ھم يہ مشاھدہ کرتے ھيں کہ آج بھي خدا پر ايمان اور اس کي پرستش دنيا بھر ميں وسيع پيمانے پر رائج اور موجود ھے۔
نظريہٴ جھالت کي ترديد کرنے والے موارد بھي وافر مقدار ميں موجود ھيں۔ اس سلسلہ ميں صرف اتنا تذکرہ کافي ھے کہ دنيا ميں ايسے بھت سے دانشمند پائے گئے ھيں جودل کي گھرائيوں سے خدا پر ايمان و اعتقاد رکھتے تھے مثلاً نيوٹن (ISAAQ NEOTON)، گيليليو (GALILEO) آئن انسٹائن اور نہ جانے ايسے ھزاروں کتنے افراد اور آج بھي ايسے خدا پر ايمان رکھنے والے افراد کا مشاھدہ کيا جا سکتا ھے ۔
۴)ھمارے اعتبار سے دين کي طرف انسان کي رغبت کي وجوھا ت دو ھيں:
پھلي يہ کہ تاريخ کے شروعاتي دور ھي سے بشر يہ سمجھتا آيا ھے کہ ھر شئے ايک علت چاھتي ھے اور ايسي شےٴ جو ممکن الوجود ھو،اس کے لئے محال ھے خود بخود پيدا ھوسکے۔
دوسري وجہ يہ ھے کہ وجود خدا اور اس کي پرستش پر ايک طرح کا پو شيدہ يقين وايمان تمام انسانوں کے دل کے کسي نہ کسي گوشے ميں رھتا ھے يعني جس طرح حقيقت طلبي اور حسن پرستي فطري طور پر ھميشہ سے تمام انسانوں ميں پائي جاتي رھي ھے اسي طرح سے خدا شناسي اور خداپرستي بھي ھميشہ سے بشريت کا خاصہ رھي ھے اور يھي وہ فطرت الٰھي ھے جو ان کو خدا پر ايمان و يقين کي طرف کھينچتي رھتي ھے۔
دين کي طرف انسان کي رغبت سے متعلق اور بھي بھت سے نظريات بيان ھوئے ھيں ليکن ان سب کي وضاحت اور نقد ظاھرھے ان مباحث کو طولاني کردے گي جو يھاں مناسب نھيں ھے۔
مذکورہ نظريات کي وضاحت اور نقد سے واضح طور پر يہ حقيقت سامنے آجاتي ھے کہ ان نظريات کو پيش کرنے والے افراد شديد تعصبات کي بنياد پر دين کي مخالفت اور نفي کربيٹھے ھيںنيز يہ کہ محبت يا بغض کي زيادتي بھي اکثر عقل کو اندھا کرديتي ھے۔
علاوہ از يں،ان نظريات کے بانيوںنے پھلے ھي سے يہ فرض کرليا ھے کہ خدا اور دين پر ايمان و اعتقادکيلئے کوئي عقلي اور منطقي دليل موجود نھيں ھے لھٰذا اسي وجہ سے اس سلسلے ميں لغو دلائل دينے پرمجبور ھوگئے ھيں اور اس رغبت کے وجود ميں آنے کي وجہ کچھ خاص نفساتي جذبات اور پھلووں کو قرار دے بيٹھے ھيں۔ مثلاً يھي کہ پھلے زمانے کا انسان طبيعي حادثات کي علت اور وجہ نھيں جانتا تھا لھٰذا انھيں سحرو جادو پر محمول کرديا کرتا تھا ليکن اگر يہ واضح ھوجائے کہ دين کي طرف رغبت کے مناسب عقلي اور منطقي دلائل موجود ھيں تو ان نظريات کي اھميت خود بخود ختم ھو جائے گي۔