اہل تسنن و نظریہ مہدویت
یہ مسئلہ صرف شیعوں تک محدود نہیں ہے ‘بلکہ اہل سنت حضرات بھی ظہور امام مہدی علیہ السلام پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ اگر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ مہدویت کا دعویٰ کرنے والے جتنے شیعہ تھے اتنے ہی سنی تھے۔
یہ مسئلہ صرف شیعوں تک محدود نہیں ہے ‘بلکہ اہل سنت حضرات بھی ظہور امام مہدی علیہ السلام پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ اگر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ مہدویت کا دعویٰ کرنے والے جتنے شیعہ تھے اتنے ہی سنی تھے۔ جیسا کہ مہدی سو ڈانی نے اپنے اردگرد کثیر تعداد میں افراد جمع کیے اور پھر اعلان مہدویت کر دیا‘ حالانکہ وہ سنی نشین علاقے اور ملک سے تعلق رکھتا تھا۔ ہندو پاک میں مہدویت کے دعویدار گزرے ہیں۔ اسی طرح قادیانی مہدویت کے عنوان سے منظر عام پر آئے ہیں۔
روایات میں ہے کہ جب تک امام مہدی علیہ السلام کا ظہور پر نور ہو نہیں جاتا بے شمار جھوٹے دعویدار اور دجال سامنے آتے رہیں گے۔
حافظ کے اشعار
مجھے معلوم نہیں ہے کہ حضرت شیعہ تھے یا سنی۔ خیال غالب یہ ہے کہ وہ شیعہ نہیں تھے لیکن جب ہم حافظ کے اشعار کو دیکھتے ہیں ان میں کہیں پر مسئلہ مہدویت کی خوشبو ضرور آتی ہے۔ وہ ایک جگہ پر کہتے ہیں:
کجا است صوفی دجال چشم ملحد شکل
کہاں ہے صوفی دجال جو کہ ملحد بھی ہے اور ایک آنکھ سے کانا بھی یعنی بدشکل شخص
بگو بسوز کہ مہدی دین پناہ رسید
اس سے کہہ دو کہ وہ جل جائے کہ مہدی ؑ دین پناہ تشریف لا چکے ہیں۔
حافظ ایک اور جگہ پر کہتے ہیں:
مثردہ ای دل کہ مسیحا نفسی می آید
اے دل! تجھے مبارک کہ تیرے مسیحا تشریف لانے والے ہیں۔
کہ زانفاس خوش بوی کسی می آید
کہ اس کے معطرسانسوں میں کسی کی خوشبو مہک رہی ہے۔
از غم و درد مکن نالہ وفریاد کہ دوش
غم سے نڈھال نہ ہو زیادہ رو بھی نہیں کیونکہ
زدہ ام فالی و فریاد رسی می آید
میں نے فال نکالی ہے (مجھے یقین ہے) کہ میرا فریاد رس آرہا ہے۔
کس ندانست کہ منزلگہ مقصود کجا است
کسی کو خبر نہیں کہ اس کی منزل مراد کہاں ہے۔
اینقدر است کہ بانگ جرسی می آید
بس اتنی سی بات ہے کہ گھنٹی کی آواز آنے والی ہی ہے۔
خبر بلبل ایں باغ میرسید کہ من
وہ بلبل کی خبر اس باغ سے معلوم کر رہا ہے اور میں
نالہ ای می شنوم کز قفسی می آید
رونے کی آواز سن رہا ہوں کہ وہ ابھی آزاد ہو جائے گا۔
میں تاریخی لحاظ سے جو کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ چکا اب دیکھنا یہ ہے کہ مہدویت کا دعویٰ کرنے والے جھوٹے اشخاص کس طرح اور کب پیدا ہوں گے؟ یہ بھی ایک الگ بحث ہے ۔ میں اپنی اس تقریر میں تین اہم مطلب بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ چونکہ دنیا جب تک ظلم و جور سے پرنہیں ہو گی امام زمانہ علیہ السلام تشریف نہیں لائیں گے۔ جب ان کے سامنے اصلاح اور تبلیغ کی بات کی جائے یا کوئی نیکی کا جملہ کہہ دیا جائے تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے ظلم کو بڑھنا چاہیے۔ تاریکی زیادہ ہو گی تو امام علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ نیکی پھیلاتے ہیں یا نیکی کی بات کرتے ہیں وہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی تاخیر کا سبب بن رہے ہیں۔ میں اس مطلب کو سادہ الفاظ میں بیان کرتا ہوں تاکہ حقیقت کھل کر واضح ہو جائے۔ میں نے ان سے کہنا ہے کہ نہیں صاحبو! حقیقت یہ نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو یہ عقیدہ تو کھلی گمراہی ہے۔
منبع : دانشکده