• صارفین کی تعداد :
  • 1128
  • 9/28/2017
  • تاريخ :

پیغامِ کربلا / محرم امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کی جنگ اور قربانی/ کیا امام حسین (ع) نے عمر بن سعد کے ساته گفتگو کی تهی؟

پیغامِ کربلا / محرم امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کی جنگ اور قربانی

 

جیسے جیسے دنیاکے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے،اہدافِ کربلاکی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا: امام حسین علیہ السلام 2 محرم الحرام کو حرابن یزید ریاحی کے لشکر کے گھیرے میں سرزمین کربلا پر وارد ہوئے مورخین نے لکھا ہے دشت نینوا میں آپ کا گھوڑا چلتے چلتے خود رگ گیا آپ نے سواریاں بدلیں مگر کسی سواری نے قدم آگے نہیں بڑھایا گھوڑے سے اترے خاک سونگھی اور سمجھ گئے خاندان رسول (ص) کی یہی قربان گاہ ہے ۔ بقول شاعر: چلتے چلتے جور کا اسپ تو بولے حضرت نہیں معلوم کہ اس دشت کو کیا کہتے ہیں آئی ہاتف کی ندا گھوڑے سے اترو شبیر ہے یہی دشت جسے کرب و بلا کہتے ہیں امام (ع) کے سوال پر لوگوں نے اس سرزمین کے مختلف نام لئے کسی نے نینوا کسی نے ماریہ ، کسی نے سقیہ کسی نے غاضریہ اور بالآخر کربلا کا نام لیا تو امام (ع) نے حضرت عباس (ع) کو حکم دیا کہ یہیں فرات کے ساحل پر خیمے لگائے جائیں ، ایک طرف امام اور ان کے اعزہ و اصحاب کے خیمے اور دوسری طرف حر اور اس کی سپاہ کے خیمے لگ گئے ۔4 محرم کو عمر ابن سعد چار ہزار یا ایک اور روایت کے مطابق چھ ہزار کا لشکر لے کر کربلا پہنچا اور سب سے پہلا حکم ، نہر علقمہ سے خیام حسینی کے ہٹائے جانے کا صادر کیا ، امام (ع) کےعلمدار حضرت عباس (ع) نے مخالفت کرنی چاہی مگر امام (ع) نے فرمایا ہم پانی کے لئے جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتے اور پھر نہر علقمہ سے تین میل کے فاصلے پر بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں خیام حسینی نصب ہوئے ، ظاہر ہے خیموں کا نہر سے ہٹایا جانا ہی ” بندش آب ” کے مقصد سے تھا مگر جو پانی ذخیرہ کیا جا سکا وہ ساتویں محرم تک کام آیا اسی لئے روایات میں ہے کہ حسینی لشکر نے عاشور کے دن تین دنوں کی بھوک اور پیاس میں دشمنان اسلام و قرآن سے امام وقت کا دفاع کرتے ہوئے شہادت کا جام نوش کیا ہے ۔ 4 محرم الحرام سے 9 محرم الحرام تک کربلا میں کوفہ ، بصرے ، دمشق اور مصر و ایران و غیرہ سے مسلسل طور پر فوجیں اکٹھا ہوتی رہیں شیث ابن ربیع کے ساتھ تقریبا” دس ہزار تک عروہ ابن قیس کے ساتھ چار ہزار ، سنان ابن انس کے ساتھ چار ہزار حصین ابن نمیر کے ساتھ چار ہزار ، شمر ذی الجوشن کے ساتھ چار ہزار اور اشعث وخولی کی مانند بیسیوں سرداروں کے ساتھ ہزار ہزار کا لشکر پسر سعد کی رکاب میں موجود تھا ۔دوسری طرف سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام میں قدرت نے امامت و سپہ سالاری کے وہ اعلیٰ ترین جوہر ودیعت کئے تھے جوکہیں اور نہیں مل سکتے اللہ کے سچے نمائندوں ، نبیوں اور اماموں کی خصوصیات سے آراستہ ہونے کے ساتھ ہی ساتھ قیادت و سپہ سالاری کے دنیوی معیارات پر بھی آپ کی گہری نظر تھی ، کوئي بھی قائد ولیڈر جماعت کی تشکیل کے لئے جب اٹھتا ہے اپنے اہداف و مقاصد اور افکار و نظریات سے قوم کو آگاہ کردیتا ہے تا کہ ایک ہموار زمین پر جماعت تشکیل دے ورنہ جماعت ، ایک بے جان بھیٹر اور بے روح اجتماع کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔اچھے رہنما ، دنیا میں جہاں بھی اپنے ہمفکر و ہم مقصد قابل اعتماد و وفادار افراد نظر آتے ہیں نظر میں رکھتے ہیں تا کہ ضرورت پر ان کو اپنی مہم میں شریک کرسکیں کسی ہدف کے ساتھ میدان میں آنے والے حامیوں کی تعداد پر توجہ نہیں دیتے ساتھیوں کے عزم و استعداد پر دھیان دیتے ہیں ۔تحریک جس قدر عظیم ، اصول پسند اور انقلابی عزائم کی حامل ہوگي اس کے بنیادی اراکین اتنے ہی مختصر اور آہنی ارادوں کے مالک ہوں گے ۔الہی انقلاب ہمیشہ خطروں سے ہوکر گزرا ہے اور خطرات میں ثبات و استقامت ہرکس و ناکس کا کام نہیں ہے حریت و آزادی کی راہ میں ایک مجاہد جان و مال و آبرو اور حیثیت کی پروا نہیں کرتا راہبر اور راہ رو دونوں ضرورت پر اپنی اور اپنی اولاد تک کی قربانی پیش کرنے پر تیار رہتے ہیں ۔امام حسین علیہ السلام نے بھی الہی قائد کے عنوان سے اپنے عظیم انقلاب کے مقدمات خود فراہم کئے اپنے علم و فضل اور عمل و کردار کے ذریعہ اپنی امامت و قیادت دلوں میں مستحکم کی کہ الہی رہبری کے مستحق ہم ہیں ۔چنانچہ زبانی اور تحریری طور پر حمایت کا اظہار کرنے والوں کی کثرت کے باوجود امام حسین (ع) نے اپنے انقلابی ارکان کی فہرست تیارکرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا ۔انقلاب کے اہم ترین رکن حضرت علی اصغر(ع) کی پیدائش کے چند دنوں بعد ہی مدینہ سے نکل پڑے اور مکہ ہوتے ہوئے کربلا پہنچے اور اپنے منتخب شدہ افراد اکٹھا کئے جناب زہیرقین اور حبیب ابن مظاہر کو نصرت کی دعوت دی ، مسلم ابن عوسجہ اور وہب کلبی کو راستے سے ساتھ کرلیا حر اور اس کے بھائی بیٹے اور غلام کاصبح عاشورا تک انتظار کیا اور جب سب جمع ہوگئے تو نماز صبح کے بعد جنگ کے لئے میدان میں اترے اور ایسی مہتم بالشان قربانیاں پیش کیں جن کی مثال تاریخ بشریت پیش کرنے سے قاصر ہے ۔نواسۂ رسول (ص) نے سو افراد بھی ساتھ نہیں رکھے دس سال تک انتخاب در انتخاب کرتے رہے اور جن کو چن لیا ایسا بنادیا کہ سب حسین نظر آنے لگے ۔

پیغامِ کربلا: 

جیسے جیسے دنیاکے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے،اہدافِ کربلاکی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔اکیسویں صدی کی ایک دردناک حقیقت یہ ہے کہ اس صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے مختلف وسائل موجود ہونے کے باوجوداہدافِ کربلا اور پیغامِ کربلا کی اس طرح سے ترویج و اشاعت نہیں کی گئی جس طرح سے کی جانی چاہیے تھی۔ عالم اسلام کی اس سستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یزیدیت کی کوکھ سے جنم لینے والی ناصبیّت نے دین اسلام کے خلاف سرد جنگ کاآغازکردیا اور دیکھتے ہی دیکھتےناصبی اپنے اوپر اسلام کالیبل لگاکر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے،یزید کو رضی اللہ اور امام حسین کو نعوذباللہ باغی اور سرکش کہا جانے لگا۔ایک سروئے کے مطابق اس صدی میں ناصبیوں کی فکری تحریک سے سینکڑوں سادہ لوح مسلمان متاثر ہوئے اور جولوگ ناصبیّت کے جال میں براہ راست نہیں آئے،ناصبیّت نے ان کے سامنے کربلاکو اس طرح مسخ کرکے پیش کیا کہ وہ لوگ دہشت گردوں کو امام حسین{ع} کا حقیقی وارث سمجھنے لگے اور اس موضوع پر مقالے اور کالم چھاپنے لگے ۔ گویاجوزہررشدی کے قلم نے رسولِ اکرم ۖ کے خلاف اگلاتھا وہی نواسہ رسول ۖ کے خلاف اگلاجانے لگا۔پوری دنیا میں خصوصاً عراق،افغانستان ،سعودی عرب،ہندوستان اور پاکستان میں ایسےتجزیہ نگار،مبصرین اور صحافی حضرات جنہوں نے کبھی کربلا کے بارے میں تحقیق ہی نہیں کی تھی ،انہیں ناصبیّت نے غیر مصدقہ تحریری مواد اور فرضی معلومات فراہم کر کے اپنے حق میں استعمال کیا، ٹی وی چینلز سے کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی کھلم کھلا یزید کی تعریف اور امام حسین[ع] پر تنقید کی جانے لگی،اس صورتحال پر مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا سنّی وہ مجموعی طورپراس بات سےغافل تھے کہ انہیں ناصبی نیا اسلام سکھارہے ہیں۔ 

 

آج کے دور میں اگر کوئی مبصّر امام حسین پر تنقید کرتا ہے،کوئی چینل یزید کی تعریف کرتاہے،کوئی صحافیدہشت گردوں کو امام حسین{ع} کا وارث قرار دیتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں تک نامِ حسین{ع} تو پہنچا ہے پیغامِ حسین{ع} نہیں پہنچا۔اب یہ ذمہ داری ہے ان تمام مسلمانوں کی وہ خواہ شیعہ ہوں یا سنّی کہ وہ ناصبیّت کو بے نقاب کر نے کےلئے پیغام کربلا کو عام کریں۔تحریک ِکربلا پر لکھیں،کربلا کے بارے میں کتابیں پڑھیں،تنہائی کے لمحات میں کربلا سوچیں،اپنی محافل میں کربلا کو موضوع بنائیں اور اپنی عملی زندگی کو مقاصدکربلا سے ہم آہنگ کریں۔۔۔

آج اسلامی دنیا میں اہدافِ کربلا کے گم ہوجانے کا اہم سبب وہ دانشمند،خطباء اور ادباء ہیں جنہیں حسین ابن علی [ع]کی چوکھٹ سے علم کارزق،افکار کا نور،قلم کی بلاغت،زبان کی فصاحت اوربیان کی طاقت تو مل جاتی ہے لیکن وہ پیغامِ کربلاکو عوام تک نہیں پہنچاتے،اسی طرح وہ لوگ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو پورا سال حصولِ علم کے لئے مدینة العلم اور باب العلم کا دامن تو تھامے رکھتے ہیں لیکن اپنے علم کو تبلیغ کے ذریعے منتقل نہیں کرتے۔ 

اگر تحریک کربلا کو اس کی آب و تاب،جمال وجلال،عشق و عرفان اورخون و پیغام کے ساتھ بیان کیا جاتا تودنیا کا کوئی بھی مسلمان ناصبیوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوتا اور دنیا کا ہرمنصف مزاج انسان جب دہشت گردوں اور کربلا کا موازنہ سنتا تو بے ساختہ اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوجاتے کہ دہشت گردوں کا کربلا کے ساتھ کوئی ربط اور کوئی تعلق نہیں۔۔۔ 

اس لئے کہ کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کے سجدہ گزاروں پر عرش والے بھی ناز کرتے ہیں،جس نے دین ِ اسلا م کو لازوال کردیا،جس نے اسلام کو حیاتِ نو بخش دی، جس نے شریعت کو لازوال کردیا،جس نے سنّت کو زندہ کردیا،جس کے ذکر نے میر انیس کو بادشاہوں سے بے نیاز کردیا،جس کے تخیّل نے مرزا دبیر کو معیار فصاحت بنا دیا،جس کی تجلّی نے اقبال کو شاعرِ مشرق بنا دیا،جس کی معرفت نے قم کو مرکزِ انقلاب بنادیا،جس کے فیض نے محمد حسین آزاد کو نام بھی اور احترام بھی عطاکیا،جس کے حسن و جمال نے شعراء کو جذب کرلیا،جس کی روانی نے خطباء کو مسحور کردیا،جس کی پیاس نے دو عالم کو دنگ کردیا،جس کے علم کا پھریر ا آفاقِ عالم پر چھایا ہواہے اور جس کے کرم کی سلسبیل سے قیامت تک کی رہتی دنیا سیراب ہوتی رہے گی۔۔۔ 

کربلاتو وہ ہے۔۔۔جس کا امیر اگر اپنے نانا کی آغوش میں ہوتو شہکارِ رسالت ہے،اگر اپنے باپ کے کندھوں پر ہو تو فخرِ ولایت ہے،اگرآغوشِ مادر میں ہو تو نگینِ طہارت ہے۔ 
کربلاتو وہ ہے ۔۔۔جس کے امیرنے نوکِ نیزہ پر قرآن کی تلاوت کرکے آلِ محمد کی فضیلت و عظمت کا سکّہ جمادیا،جس کے علمدار نے یزیدیت اور ناصبیّت کو رسوا کردیا،جس کے نونہالوں کی تشنگی نے عالمین کو رلادیا۔ 

بھلا کیا ربط ہے کربلا کا دہشت گردوں کے ساتھ۔۔۔ 

یہ ہمارے واعظین ،خطباء،ادباء اور صاحبانِ قلم و فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصلحتوں کے مورچوں سے نکل کر اور حالات کے زِندان کو توڑ کرکربلا پر تحقیق کریں،کربلا لکھیں،کربلا پڑھیں،کربلاخود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔۔۔ 

اس لئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے دنیاکے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے،اہدافِ کربلاکی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ 

اگر ہم یہ ذمہ داری ادا نہ کرسکیں تو پھرہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سلبِ توفیق کے پیچھے ضرور کوئی بات ہے: 

ہراسِ شب میں اب کوئی جگنو بھی سانس تک نہیں لیتا 

رات کے سنّاٹے میں فاختہ کی کوک باربار 

ڈوب جاتی ہے 

جواِک آنکھ دنیا پر اور 

اِک آنکھ دین پر رکھتے ہیں 

شہادت کی گھڑی 

ان کی زباں سوکھ جاتی ہے 

جھوٹ کے چشمے سے 

سچ کا پیاسا سیراب نہیں ہوسکتا 

مرمرکاپتھر 

پھونکوں سے آب نہیں ہوسکتا 

راوی کی موجوں پہ مورّخ چین ہی چین نہیں لکھ سکتا 

جومصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑجائے 

وہ ہاتھ سلام یا حسین {ع} نہیں لکھ سکتا - 

............

کیا امام حسین (علیه السلام) نے عمر بن سعد کے ساته گفتگو کی تهی؟

جواب : جب عمر بن سعد کا عظیم لشکر کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کے محدود لشکر کے سامنے کھڑا ہوگیا ، تو عمر بن سعد کا قاصد امام علیہ السلام) کے پاس آیا اور سلام کرنے کے بعد عمر بن سعد کا خط آپ کو دیا اور عرض کیا : میرے مولی ! آپ ہمارے دیار میں کیوں آئے ہیں ؟

امام نے اس کے جواب میں فرمایا :

«کَتَبَ إِلَىَّ أَهْلُ مِصْرِکُمْ هذا أَنْ أَقْدِمَ، فَأَمّا إِذْ کَرِهُونِی فَأَنَا أَنْصَرِفُ عَنْهُمْ!»;

تمہارے شہر والوں نے خط لکھ کر مجھے بلایا ہے اور اگر وہ میرے آنے سے راضی نہیں ہیں تو میںواپس چلا جائوں گا (١) ۔

خوارزمی نے روایت کی ہے : امام علیہ السلام نے عمر بن سعد کے قاص سے فرمایا :

«یا هذا بَلِّغْ صاحِبَکَ عَنِّی اِنِّی لَمْ اَرِدْ هذَا الْبَلَدَ، وَ لکِنْ کَتَبَ إِلَىَّ أَهْلُ مِصْرِکُمْ هذا اَنْ آتیهُمْ فَیُبایَعُونِی وَ یَمْنَعُونِی وَ یَنْصُرُونِی وَ لا یَخْذُلُونِی فَاِنْ کَرِهُونِی اِنْصَرَفْتُ عَنْهُمْ مِنْ حَیْثُ جِئْتُ» ; (

میری طرف سے اپنے حاکم سے کہو، میں خود اس جگہ پر نہیں آیا ہوں بلکہ اس جگہ کے لوگوں نے مجھے دعوت دی ہے تاکہ میں ان کے پاس آئوں اور وہ میری بیعت کریں اور مجھے میرے دشمنوں سے محفوظ رکھیں اور میری مدد کریں لہذا اگر وہ راضی نہیں ہیں تو میں جس راستہ سے آیا ہوں اسی سے واپس چلا جائوں گا(2)۔

جس وقت عمر بن سعد کا قاصد واپس گیا اوراس کو اس بات کی خبر دی تو ابن سعد نے کہا : مجھے امید ہے کہ خداوند عالم مجھے حسین سے جنگ کرنے سے چھٹکارا دلائے گا ،پھر اس نے ابن سعد کو امام علیہ السلام) کی اس بات سے آگاہ کیا ، لیکن اس نے جواب میں لکھا :

حسین بن علی (علیہما السلام) اور ان کے تمام اصحاب سے کہو کہ وہ یزید کی بیعت کریں اور اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو ہم اپنا نظریہ لکھیں گے ...!

جب ابن زیاد کا خط ابن سعد کو ملا تو اس نے کہا : میرا خیال یہ ہے کہ عبیداللہ بن زیاد ، صلح نہیں چاہتا ۔

عمر بن زیاد نے عبیداللہ بن زیاد کا خط امام حسین (علیہ السلام) کے پاس بھیجا ۔

امام علیہ السلام) نے فرمایا : 

«لا أُجیبُ اِبْنَ زِیادَ بِذلِکَ اَبَداً، فَهَلْ هُوَ إِلاَّ الْمَوْتَ، فَمَرْحَبَاً بِهِ»; ( میں ابن زیاد کے اس خط کا جواب ہرگز نہیں دوں گا ، کیا موت سے بڑھ کر کوئی انجام ہوسکتا ہے ؟ خوشابحال ایسی موت پر ! (3) ۔

امام حسین (علیہ السلام) نے عمر بن سعد کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے کہا کہ عمر بن سعد سے کہو کہ رات کے وقت دونوں فوجوں کے درمیان تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ، جب رات ہوگئی تو ابن سعد بیس لوگوں کے ساتھ اور امام حسین (علیہ السلام) بھی بیس اصحاب کے ساتھ مقررہ جگہ پر پہنچے ۔

امام علیہ السلام) نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ کچھ دوری پر کھڑے ہوجائیں اور صرف اپنے بھائی عباس اور بیٹے علی اکبر کو اپنے پاس رکھا ، اسی طرح عمر بن سعد نے بھی اپنے بیٹے حفص اور غلام کے علاوہ سب کو کچھ دوری پر کھڑے ہونے کا حکم دیا ۔

امام علیہ السلام نے کلام کو آغاز کیا اور فرمایا :

«وَیْلَکَ یَابْنَ سَعْد أَما تَتَّقِی اللّهَ الَّذِی إِلَیْهِ مَعادُکَ؟ أَتُقاتِلُنِی وَ أَنَا ابْنُ مَنْ عَلِمْتَ؟ ذَرْ هؤُلاءِ الْقَوْمَ وَ کُنْ مَعی، فَإِنَّهُ أَقْرَبُ لَکَ إِلَى اللّهِ تَعالى»; ( وائے ہو تجھ پر اے سعد کے بیٹے ! کیا تو اس خدا سے نہیں ڈرتا جس کی طرف تجھے پلٹ کر جانا ہے ؟ کیا تو مجھ سے جنگ کرتا ہے جبکہ تجھے معلوم ہے کہ میں کس کا بیٹا ہوں ؟ اس گروہ کوچھوڑ کر ہمارے پاس آجا تاکہ تو خدا سے نزدیک ہوجائے ۔

ابن سعد نے کہا : اگر میں اس گروہ سے جدا ہوجائوں تو مجھے ڈر ہے کہ یہ میرے گھر کو ویران کردیں گے ۔ امام علیہ السلام

نے فرمایا : ""انا ابنیھا لک"" میں اس گھر کو تیرے لئے بنائوں گا ۔ ابن سعد نے کہا : مجھے ڈر ہے کہ وہ میرے مال پر قبضہ نہ کرلے ۔ امام نے فرمایا :

""انا اُخلف علیک خیرا منھا من مالی بالحجاز"" میں حجاز میں اس سے بہتر مال اپنے مال سے تجھے عطا کروں گا

ابن سعد نے کہا : مجھے اپنے خاندان کی جان کا خطرہ ہے (مجھے ڈر ہے کہ ابن زیاد ان کو تہہ تیغ کردے گا )۔

امام حسین (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ابن سعد اپنے ارادہ سے باز نہیں آرہا ہے تو خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہیں دیا اور اس کی طرف سے منہ موڑکر اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا :

«مالَکَ، ذَبَحَکَ اللّهُ عَلى فِراشِکَ عاجِلا، وَ لا غَفَرَ لَکَ یَوْمَ حَشْرِکَ، فَوَاللّهِ إِنِّی لاَرْجُوا أَلاّ تَأْکُلَ مِنْ بُرِّ الْعِراقِ إِلاّ یَسیراً»; (

تیرا کیا ہوگا اس وقت جب خدا بہت جلد تیرے بستر پر تیری روح کو نکال لے گا اور قیامت کے دن تجھے معاف نہیں کرے گا ، خدا کی قسم ! مجھے امید ہے کہ تو عراق کے گہیوں تجھے نصیب نہیں ہوں گے مگر بہت کم مقدار میں ۔

ابن سعد نے مزاق اڑاتے ہوئے گستاخی کی : ""وفی الشعیر کفایة عن البر"" ۔ عراق کے جو میرے لئے کافی ہیں (4) ۔

امام علیہ السلام نے ہر قدم پر اتمام حجت کی تاکہ کوئی بھی شخص بے خبری کا دعوی نہ کرسکے ۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دشمن کے لشکر کا سردار بھی امام کی حقانیت اور امام کے دشمن کے ناحق ہونے کا اعتراف کرتا ہے اور اپنے عذر میں صرف ان کی بے رحمی اور قساوت کو بیان کرتا ہے اور یہ بہت اچھا اعتراف ہے !

دوسری طرف امام ہر طرف سے جنگ کی آگ کو خاموش کرنا چاہتے ہیں اور دشمن ہر طرف سے جنگ کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کررہا ہے ، اس بات سے بے خبر کہ یہ آگ جلنے کے بعد شعلہ ور ہوجائے گی اور بنی امیہ کی پوری حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی (5) ۔

حوالہ جات

(1) . تاریخ طبرى، ج 4، ص 311 ; ارشاد مفید، ص 435 و بحارالانوار، ج 44، ص 383.

(2) . مقتل الحسین خوارزمى، ج 1، ص 241.

(3) . اخبار الطوال، ص 253.

(4) . فتوح ابن اعثم، ج 5، ص 164-166 و بحارالانوار، ج 44، ص 388-389.

(5) . گرد آوری از کتاب: عاشورا ریشه ها، انگیزه ها، رویدادها، پیامدها، زیر نظر آیت الله مکارم شیرازی، ص 386.